روشن تاریک پہلو

 خیبرپختونخوا میں ’بچوں کے تحفظ (چائلڈ پروٹیکشن)‘ سے متعلق حکمت عملی پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں وضع کی گئی تھی جس کے تحت خصوصی قانون سازی بعنوان ’خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010ئ‘ ایک عرصے تک شہ سرخیوں (زیربحث) رہنے کے بعد بھلا دی گئی ہے! بنیادی مقصد ایک ایسے حسب حال و ضرورت ادارے کا قیام تھا جو بچوں (بالخصوص بے آسرا بچوں) کے حقوق‘ اِن کا فلاح و بہبود و تحفظ یقینی بنائے لیکن ہمارے قانون سازی کا ’روشن تاریک پہلو‘ یہ ہے کہ عوام کے منتخب اراکین اسمبلی قانون سازی سے زیادہ اپنی ذمہ داریوں (فرائض) کی ادائیگی نہیں کرتے۔ قوانین سے متعلق عوام کے تحفظات و مشکلات کا ادراک ہونے کے باوجود قانونی سقم بھی دور نہیں کئے جاتے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کی بے توقیری عام ہے۔ اِن کا خاطرخواہ اثر دیکھنے میں نہیں آتا اور قوانین کی بہتات (انبار) کے باوجود خاطرخواہ نتائج (اہداف و مقاصد) حاصل نہیں ہو پا رہے۔ ماضی کی طرح موجودہ حکومت نے بھی بچوں کے تحفظ و فلاح سے متعلق امور کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی اور یہی وجہ ہے کہ ’چائلڈ پروٹیکشن یونٹ‘ غیرفعال جبکہ اِس کے نگران ’چائلڈ پروٹیکشن آفیسر‘ کی تقرری یا تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی اپنی جگہ اور بچوںکو درپیش مسائل و مشکلات اپنی جگہ موجود (برقرار) و حل طلب ہیں۔بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی‘ اُن سے زیادتی کو روکنا‘ تعلیم و تربیت‘ تحفظ اور صحت و خوراک جیسی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں۔

 یادش بخیر سال 2011ءمیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’انٹرنیشنل چلڈرن فنڈ (UNICEF)‘ کے مالی و تکنیکی تعاون سے خیبرپختونخوا میں 12 ’چائلڈ پروٹیکشن یونٹ‘ قائم کئے گئے تھے جن کا دائرہ¿ کار کو بعدازاں صوبے کے دیگر اضلاع تک توسیع دینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے مذکورہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹس صوبائی حکومت کے حوالے کئے اور یوں مارچ 2018ءمیں کروڑوں روپے اور دیگر سرکاری وسائل خرچ کرکے بنایا گیا ادارہ غیرفعال ہو گیا۔ قابل توجہ ہے کہ عوام کی منتخب کردہ سیاسی قیادت جب افسرشاہی (بیوروکریٹس) کے ہتھے چڑھتی ہے تو وہ اِنہیں ایک کے بعد ایک سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں۔ غیرملکی امداد سے شروع ہونے والے کئی ایسے منصوبوں کا انجام چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کی طرح ہوا ہے کہ اُن کا نام و نشان اور تذکرہ اب صرف ریکارڈ کا حصہ ہے۔ چھ سال گزر چکے ہیں کہ چائلڈ پروٹیکشن آفیسر تعینات نہیں ہوسکا۔ شب و روز کے گزرتے سلسلے میں بے آسرا بچے اپنے حقوق سے محروم اور غذائی و جسمانی تحفظ کے ساتھ بہتر مستقبل کے لئے تعلیم و ہنرمندی کے مستحق ہیں لیکن اُن کی داد رسی نہیں ہو رہی۔ ماضی میں کئی مواقعوں پر چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو فعال کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے توجہ دلانے پر سطحی کاروائیاں دیکھنے میں آتی رہی ہیں لیکن مختلف ادوار میں خاطرخواہ ٹھوس و سنجیدہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ بے آسرا بچوں کے لئے حکومت کے پاس ہر دور میں صرف وعدے ہی وعدے رہے ہیں!کیا خیبرپختونخوا میں بچے عدم تحفظ کا شکار ہیں؟ جنوری سے دسمبر (دوہزار اُنیس) کے دوران خیبرپختونخوا کے چھبیس اضلاع میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 185 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ملوث 248 ملزموں کی گرفتاری پولیس ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن سزا کا تناسب کیا رہا اِس بارے میںکوائف (ڈیٹا) دستیاب نہیں ہے۔

 خیبرپختونخوا کے جن اضلاع سے بچوں کے ساتھ جنسی و دیگر زیادتیوں کے جرائم رپورٹ نہیں ہو رہے تو اِس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ وہاں صورتحال مثالی ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ بچوں کے حقوق زیادتی سے پہلے اور زیادتی کے بعد بھی پائمال ہو رہے ہیں۔ اِس پوری صورتحال کے لئے ذمہ داری ’سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ‘ ہے جس کی سماجی فلاح و بہبود سے متعلق کارکردگی کے بارے میں جس قدر کم لکھا جائے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ یقینا سماجی فلاح و بہبود جیسے جامع تسمیہ رکھنے والے صوبائی محکمے کے فیصلہ سازوں نے کورونا وبا کے ظاہر ہونے کی وجہ سے سُکھ کا سانس لیا ہوگا جو پہلے بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے اور اب بھی اِن کی مصروفیت تحریر (الفاظ) سے عمل کے قالب میں نہیں ڈھل سکی۔ اجتماعی بے حسی کے جاری سلسلے کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ بچے پھول ہیں‘ چاہے انہیں آسرا میسر ہو یا یہ بے آسرا اور غربت و حالات سے نمٹ رہے ہوں! بے آسرا بچوں کے حقوق کا تحفظ‘ فلاح و بہبود اور اِن کے خلاف جرائم روکنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے حکومت انکار نہیں کر سکتی لیکن چونکہ کسی غیرملکی امداد سے منصوبہ سازی کے عمل میں بیرون ملک کے دورے اور پرکشش مراعات شامل ہوتی ہیں‘ اِس لئے ہر غیرملکی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ماہرین کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک مفید حکمت عملی کاغذوں پر بنائی جاتی ہے اُور پھراُسے کاغذوں ہی میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ”جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں!“