پارکوں اورباغات کی بحالی

 آخر کس کس چیز کی فریاد کی جائے کس کس معاملہ کارونا رویا جائے ہم آخر کب تک ماضی کی عظمتوں کاذکرکرکے دلوں کو تسلی دیتے رہیں گے کیا یہ عظمت رفتہ واپس نہیں لائی جاسکتی کیا ترقی کے اس دوڑ میںہم چند باغات بھی شہر کو لوٹا نہیں سکتے حالانکہ اس شہر نے توہمیں بہت کچھ دیاہے بدلے میں اگر آج چندباغات ہی لوٹادیں تو کسی نہ کسی حد تک تلافی ہوسکے گی پشاور ہائی کورٹ نے شاہی باغ کو قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے شاہی باغ کی خوبصورتی بحال کرنے ، تجاوزات ہٹانے اور شاہی باغ میں قائم شادی ہال مسمار کرنے کی ہدایت کی ہے کیس کی سماعت جسٹس قیصر رشید اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شاہی باغ میں تجاوزات کی بھر مار ہے جبکہ شاہی باغ کی خوبصورتی بحال کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں حکومت کی طرف سے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پیش ہوئے جسٹس قیصر رشید نے کہا یہ پارک ایک قومی ورثہ ہے پارک کی خوبصورتی بحال کرنے کے لئے اقدامات کریں شاہی باغ اور وزیر باغ کے اردگرد تجاوزات کو ہٹا ئیں قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی کریں سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ پارکوں کی بحالی کے لئے اقدامات کررہے ہیں جبکہ قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی کی ہے بہت جلد پارکوں کو تجاوزات سے پاک کردیا جائیگا جس پر جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ محکمے اچھا کام کریں گے تو ہم اس کو سراہتے ہیں ہمیں بی آر ٹی سے کوئی کام نہیں پارکوں کی خوبصورتی بحال کریں بی آر ٹی کو بعد میں دیکھیں گے۔عدالت نے آئندہ سماعت پر پارکوں کی بحالی کے لئے کیے گئے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔

 ایک وقت تھا کہ پشاور کو پارکوں اور پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا ۔ پشاور کے شاہی باغ، وزیر باغ ، جناح پارک اور سابق کمپنی باغ ( موجودہ خالد بن ولید پارک) کی ایک دھوم تھی شہری روزانہ کثیر تعداد میں اپنے بچوںکے ہمراہ ان پارکوں میں آتے اور ان کی خوبصورتی کا لطف اٹھاتے ۔ بعد میں قبضہ مافیا نے شاہی باغ اور وزیر باغ پر اپنے پنجے گاڑ دیئے اور ان دونوں خوبصورت باغوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ان باغوں کو دیکھنے کے لئے غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں آتے اور ان باغوں کی خوبصورتی سے مسحور ہوتے امر واقعہ یہ ہے کہ ان باغوں کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین باغوں میں ہوتا تھا لیکن آج ان باغوں کو تجاوزات کے ذریعے تباہ کردیا گیا ہے البتہ صدر کے علاقہ میں خالد بن ولید پارک کا حسن برقرار ہے، شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ کینٹ کا علاقہ ہے اور اس کی نگرانی موثر طریقے سے کی جاتی ہے جناح پارک کے اردگرد تجاوزات نے اس کے حسن کو ماند کردیا ہے پشاور میں اکثر سیاسی اور مذہبی اجتماعات اس پارک میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا حسن بھی کافی حد تک ماند پڑگیا ہے حکومت کو چاہئے کہ جلسوں کے لئے کوئی الگ جگہ مختص کرے تاکہ پارکوں کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ ہائی کورٹ پشاور کو متعلقہ حکام نے پارکوں کی خوبصورتی بحال کرنے اور تجاوزات ہٹانے کی بات تو کردی ہے تاہم اس کے وعدے اور باتیں پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔

 باتوں ، وعدوں ، اور دعوﺅں کے بجائے باغوں کی خوبصورتی کے لئے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے شاہی باغ ایک وسیع رقبہ پر قائم تھا آج اس میں مختلف محکموں کے دفاتر ہیں اور کئی مقامات پر تجاوزات قائم کرنے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تجاوزات کے باعث اس باغ کا رقبہ کافی حد تک سکڑ کر رہ گیا ہے اب جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے اس حوالہ سے ہدایت کردی ہے تو امید کی جاتی ہے کہ اب کی بار ہائی کورٹ کی ہدایت پر ان پارکوں اور باغوں کی خوبصورتی بھی بحال ہوگی اور تجاوزات کا مستقل خاتمہ بھی ممکن ہوجائیگا ۔ دنیا بھر میں پارکوں کو توسیع دی جارہی ہے ہمارے ہاں پارکوں کا رقبہ کم کیا جاتا رہا ہے ۔ لوگوں کو تفریحی مقامات کی فراہمی بہر حال حکومت کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے حکومت اپنی اس ذمہ داری کو اب احسن طریق سے پورا کرے گی خوش قسمتی سے محکمہ بلدیات کاقلمدان ا سوقت پشاور سے تعلق رکھنے والے کامران بنگش کے حوالہ ہے جو یقینا ایک متحرک انسان ہیں اور ان سے امید رکھی جانی چاہئے کہ کم ازکم باغات کی بحالی کے معاملہ پر کوئی دباﺅ قبول نہیں کریں گے باقی ماندہ باغات کی بحالی کے ذریعہ وہ اس شہر کی تاریخ میں اپنانام امر بناسکتے ہیں ۔