افغانستان میں پائیداری کے عنوان سے قیام امن کی حالیہ کوششیں اُور فریقین کے ایک دوسرے پر حملے بیک وقت جاری ہیں جبکہ ایسی صورت میں ’امن مذاکرات‘ یا ’قیام امن‘ کی کوششوں میں کامیابی ناممکن حد تک دشوار ہے‘ افغان طالبان کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے بعد اسلامک سٹیٹ (داعش) اُور حکومت کے خلاف عسکری کاروائیوں کا سلسلہ ایک مختصر وقفے کے بعد پھر سے شروع ہو چکا ہے‘ طالبان افغانستان کے ساٹھ فیصد سے زیادہ حصے پر تسلط رکھتے ہیں‘ اگر بات تعمیروترقی کی ہو تو برسرزمین حقائق سے عیاں ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے دعویدار امریکہ اُور اِس کے اتحادی ممالک کا ہر دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے‘ افغانستان میں امریکی فوج کی بیس سالہ موجودگی‘ تنازعات اور غیر یقینی کی صورتحال کے ایک طویل عرصے کے بعد بھی‘ افغانستان کا مستقبل خاطرخواہ محفوظ نہیں ہے‘وہ ایک ملک جہاں کوئی ایک حکومتی ادارہ بھی مثالی نہیں اُور وہاں خانہ جنگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان کی ایسی سیاسی قیادت بھی ہے جو اِس تنازعے کو حل کرنے کی بجائے اِسے جاری رکھنا چاہتی ہے کیونکہ غیرملکی مداخلت ہی اُس کے سیاسی مستقبل کی ضمانت ہے‘ تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی ہفتوں سے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ رواں سال نومبر سے پہلے تمام امریکی فوجیوں کو ملک سے نکالنے کے خواہاں ہیں اُور یہ بات وہ اپنی صدارتی مہم کے دوران کہہ رہے ہیں۔
جو اِن دنوں پورے زور و شور سے جاری ہے‘ صدر ٹرمپ کے لئے افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ءایک سیاسی نعرہ ہے‘ جسے مقامی اُور عالمی طور پر ایک الگ ضرورت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے مخالفین بھی اِس ضرورت سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان سمیت امریکہ کی دیگر تمام ممالک میں موجودگی ختم ہونی چاہئے لیکن صدر ٹرمپ مشکل میں ہے کیونکہ سیاہ فام اقلیتی آبادی کے ساتھ سفید فام بھی اُن کے نسلی اُور لسانی تعصبات کو اُس امریکہ کے خلاف سازش سمجھتے ہیں جو روشن خیالی اُور انسانی حقوق کا علمبردار ہونا چاہئے‘رواں برس اُنتیس فروری دوحا (قطر) میں امریکہ اُور طالبان کے درمیان معاہدہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جس میں افغانستان کی غیر یقینی میں اضافہ ہوا ہے‘ ایک عام افغان سے بات چیت کی جائے تو اُس کے حافظہ سے وہ افغانستان محو ہوتا جا رہا ہے جہاں کبھی امن کا دور دورہ ہوتا تھا‘ فی الوقت افغانستان میں تقریباً آٹھ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں اور امریکی محکمہ¿ دفاع نے صدر ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ انخلاءکے عمل کو تیز نہ کریں کیونکہ کسی ایسی حکومت کے قیام تک امریکی فوجیوں کے انخلاءسے امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا اُور اس بات کا امکان کم ہے کہ صدر ٹرمپ وزارت دفاع کے مشوروں کو نظرانداز کریں اور فوری انخلا ءکا حکم جاری کر دیں۔ افغانستان کی داخلی صورتحال میں مارچ سے جو تبدیلیاں بھی آ رہی ہیں وہ پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے اہم اُور لائق توجہ ہیں کیونکہ امریکہ بھارت کو افغانستان اُور خطے میں اہم کردار دینا چاہتا ہے اُور اِس مقصد کے لئے کئی ایسے اقدامات بھی کئے گئے ہیں جن پر پاکستان کے تحفظات رہے ہیں۔
اُور امریکہ کی جانب سے افغان تناظر میں پاکستان کی قومی سلامتی کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ بنیادی بات یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں افغانستان کے عوام نظرانداز نہیں ہونے چاہئیں‘ جن کی آنکھیں امن کے قیام کی راہیں دیکھتے دیکھتے پتھرا گئی ہیں! صدر اشرف غنی ہر بات منطق اُور دلیل کے ساتھ کرتے ہیں لیکن وہ برسرزمین اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اُن کے مقابلے طالبان کا افغانستان کے زیادہ بڑے حصے پر کنٹرول ہے ‘اِس پوری صورتحال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حکمت عملیوں نے افغانستان کو مزید پریشانیوں سے دوچار کر رکھا ہے لہٰذا واشنگٹن اور دیگر مغربی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستحکم افغانستان ہی اُن کے اپنے مفاد میں ہے اُور افغان اقتدار جزوی نہیں بلکہ کلی طور پر افغانستان کے عوام کو منتقل ہونا چاہئے۔ بیرونی قوتوں یا افغانیوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کو مزید بااختیار بنائے رکھنے سے افغان عوام کے حقوق کا تحفظ بصورت قیام امن ممکن نہیں ہوگا‘یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ فوجی موجودگی کی بجائے غیرملکی طاقتوں کو افغانستان کی تعمیرونو اُور معیشت و معاشرت کی بحالی میں زیادہ دلچسپی لینی چاہئے ‘ یہ وہ بنیادی ضرورت ہے جسے عالمی طاقتوں کو اپنی ترجیحات کا نکتہ بنانا ہوگا بصورت دیگر کوئی ایسی صورت (حل) نہیں جو اَفغان اَمن کے فریقین بشمول پاکستان کے لئے بھی قابل قبول ہے‘ وقت ہے ماضی کے اُن سبھی تجربات (غلطیوں) کو مدنظر رکھا جائے‘ جو بطور مثال مطالعے کے لئے موجود ہیں‘افغانستان کا مستقبل اُور معاملات عوام کو سونپ دینے چاہئیں۔