وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں نیب کو مطلوب افراد موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے ‘قومی اسمبلی ،سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیاگیا ہے ‘اس حوالے سے وزارت قانون کو مروجہ قوانین میں تبدیلی اور نظر ثانی کی ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے‘ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ چاروں صوبوں سے مشاورت کے بعد مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے ‘ جیلوں میں قید اینٹی کرپشن ،منشیات اورمنی لانڈرنگ کے ملزموں کے کسی صورت پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جائیں گے ،قوانین میں تبدیلی کے بعد نیب اور پولیس کی تحویل میں ملزموں کے پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوں گے ‘جیلوں میں اے بی سی کٹیگریز پر بھی نظرثانی کا فیصلہ کیاگیا ہے ‘عام قیدیوں اورسیاسی قیدیوں پرایک ہی قانون لاگو ہوگا‘جیلوں میںکٹیگری اے اور بی ختم کر کے صرف کٹیگری سی لاگو کیا جائیگا،اس قانون کے تحت تمام قیدی ایک ہی بیرک میں رہیں گے اور ایک ساتھ ہی کھانا کھائیں گے ‘وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں کریمنل کی موجودگی کسی صورت برداشت نہیں،جمہوریت کو جمہوریت ہی رہنے دیا جائے ،کرپشن،منشیا ت فروشی کے ملزموں کو جمہوریت کے پیچھے نہیں چھپنے دیں گے‘جیل خانہ جات کے قیام کا بنیادی مقصد جرائم پیشہ لوگوں کی اصلاح کرکے انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانا ہوتا ہے مگر ہماری جیلوں کا نظام ایسا ہے کہ وہاں بے گناہ لوگ بھی جائیں تو جرائم پیشہ بن کر نکلتے ہیں ‘سیاسی قیدیوں کو جیلوں میں گھر کا ماحول فراہم کیا جاتا ہے ‘ان کے لئے بستر، کھانا، اخبار اور عیش و عشرت کا سامان گھروں سے فراہم کیا جاتا ہے۔
انہیں ائرکنڈیشنڈ سیلوں میں رکھا جاتا ہے یہی سہولت بڑے جرائم پیشہ افراد کو بھی جیلوں میں حاصل ہے ‘یہی وجہ ہے کہ سیاست دان جیلوں کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں جو سیاست دان بہت زیادہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جیل کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بیمار پڑجاتے ہیں ان کے لئے سرکاری خرچ پر ملک کے اندر بہترین علاج کی سہولت میسر ہے اور کوئی بیرون ملک علاج کی ضد کرے تو اسے اہتمام کے ساتھ باہر بھیجا جاتا ہے ‘جیل میں اے اور بی کٹیگری ختم کرنے کا حکومتی فیصلہ عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت جیلوں میں اصلاحات لانے کے اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا پائے گی؟حکومت قوانین میں ترمیم کے مسودے تو تیار کرسکتی ہے مگر پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لینا سب سے بڑا چیلنج ہے ‘قومی اسمبلی میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کو معمولی عددی اکثریت حاصل ہے جبکہ آئین میں ترمیم اور قوانین کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے‘البتہ حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قوانین نافذ کرسکتی ہے اور پھر اس آرڈیننس کی مدت میں توسیع کراسکتی ہے‘جس ملک میں ہر قدم پر اسٹیٹس کو کی رکاوٹیں حائل ہوں وہاں تبدیلی لانے کا خواب تعبیر کا روپ مشکل سے ڈھال سکتی ہے ‘موجودہ حکومت کو گزشتہ دو سالوں کے اندر مروجہ قوانین اور روایات بدلنے میں جس مشکل اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس کے پیش نظر جیل اصلاحات کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا‘مالی بدعنوانیوں، کرپشن، اقرباءپروری، منشیات کے کاروبار، منی لانڈرنگ اور اختیارات سے تجاوزکے الزامات بھی قتل، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی سے کسی طرح بھی معمولی نہیں، جیل اصلاحات سے بھی پہلے ان جرائم کو بھی ناقابل معافی اور سنگین ترین قومی جرائم کی کٹیگری میں لانا ضروری ہے تاکہ جو لوگ ان الزامات کے تحت گرفتار ہوجائےں وہ قانون میں سقم کا فائدہ اٹھاکر خود کو چھڑوا نہ سکیں ‘مروجہ قوانین اور تفتیشی نظام میں جھول کا فائدہ صرف سیاست دان ہی نہیں اٹھارہے‘معاشرے کے ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد قانونی سقم کے پیچھے چھپ کر قانون سے بچے رہتے ہیں اور اپنا گھناﺅنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیںکرپشن کے ذریعے پوری قوم کو مالی طور پر نقصان پہنچانے اور ملک کی ساکھ خراب کرنے والے پوری قوم کے مجرم ہیں ‘عوامی مفادات سے کھیلنے کا جرم بھی غداری تصور کیاجانا چاہئے اور اس جرم کے مرتکب افراد کے ساتھ غداروں جیسا سلوک ہونا چاہئے ‘جب تک امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون نہیں ہوگا، کمزور طبقے کا استحصال جاری رہے گا اورریاست مدینہ کی طرح فلاحی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔