پولیس عوام کی خادم یا؟

 عام آدمی اور پولیس کا روزانہ ایک دوسرے کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اسی وجہ سے ہمیشہ سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے کہ عام آدمی اور فورس کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے اور دونوں کے درمیان فاصلے کم کئے جائیں تاکہ پولیس عام شریف انسان کی عزت نفس کا خیال رکھے اور عوام پولیس اہلکاروں کو دل سے عزت دیں ‘اس سلسلے میں بے پناہ کوششیں کی جاچکی ہیں کئی کاوشوں کا میں بذات خود گواہ اور حصہ بھی رہا ہوں مگر حکومت یا پولیس قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ہی صورتحال اچانک دوبارہ تبدیل ہو جاتی ہے اور سفر جہاں سے شروع کیا ہوتا ہے سب اس مقام تک واپس چلے جاتے ہیں ‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ پیسہ‘ اختیار اور طاقت انسان کو بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب کردیتے ہیں یہی حقیقت ہے پولیس کی وردی اور قوانین میں جو اختیارات اور طاقت ہے اسکا بوجھ بہت سے پولیس اہلکار اور افسران سہہ نہیں پاتے اورجلد ہی بے نقاب ہو جاتے ہیں‘خیر تمام محکموں میں یہی حال ہے بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز دیکھیں تو سیاستدانوں‘ انتظامی افسران‘ محکمہ مال‘ ایکسائز‘ پٹوارخانوں‘ ہسپتال‘ محکمہ تعلیم‘ کسٹمز اور ہراس محکمہ میں لوگ اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں جہاں کسی افسر یا ماتحت کے اختیار میں کچھ ہے اور جہاں عوام کا روزانہ واسطہ رہتا ہے چونکہ پولیس کے پاس اختیارات اور طاقت دونوں ہیں اور اس کا واسطہ روزانہ براہ راست سڑکوں پر ناکہ بندیوں ‘ گلی محلوں‘ بازاروں‘ دفاتر اور دیگر مقامات پر عوام کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے شکایات بھی پولیس سے زیادہ ہیں یقینا محکمہ کی اکثریت ایماندار قابل اور نیک دل افسران اور اہلکاروں کی ہے یقینا ایسے تمام اہلکار تعریف کے لائق ہیں جو حق حلال کی کمائی کیلئے انصاف کی فراہمی میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرتے ہیں۔

‘عوام کو بھی اس بات کا احساس ہے اسلئے ان تمام افسران اور اہلکاروں نے جنہوں نے کسی بھی طرح عوام کی فلاح و بہبود اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے کوششیں کی ہیں اور کر رہے ہیں ان کو روزانہ میڈیا‘ سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر سراہا جاتا ہے ‘خیبرپختونخوا کی سابقہ صوبائی حکومت اور پولیس سربراہان نے عوام میں فورس اور اہلکاروں کی عزت اور وقار بڑھانے اور عوامی شکایات میں کمی کیلئے2013 ءکے بعد سے کئی اصلاحات متعارف کرائیں جن میں بدعنوان اہلکاروں کے خلاف عوامی شکایات پر800 سے زائد اہلکاروں کی برطرفی اور 6ہزار سے زائد اہلکاروں کو دوسری سزائیں دینا شامل ہیں ‘پولیس کے صوبائی‘ ڈویژنل اور ضلعی سربراہ تک رسائی کانظام مرتب ہوا ‘عوامی مسائل کے حل کیلئے سرکار کی نگرانی میں جرگے قائم کئے گئے جس نے ہزاروں افراد کے باہمی مسائل حل کئے ‘عوام کی سہولت کیلئے دیگر اقدامات اٹھائے گئے مگر چند سال بعد موجودہ حکومت کا اقتدار میں آنے کے بعد بار بار پولیس سربراہان کی تبدیلی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے عوامی شکایات میں پھر اضافہ ہو رہا ہے ‘ضروری ہے کہ اب کی بار نہ صرف پولیس میں ایسی اصلاحات کی جائیں جس سے فورس میں سیاسی مداخلت کم ہو ‘۔

آئی جی سے لیکر ایس ایچ او اور چوکی انچارج تک تعیناتی میرٹ پر ان اہلکاروں کی ہو جو پڑھے لکھے سمجھدار‘ ایماندار اور قابل منظم ہوں ‘یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس اہلکار کو تھانے میں اس کا جائز حق ملے اگر ایس ایچ او کو گاڑیاں ‘پٹرول‘ بل اور دیگر سامان کیلئے باقاعدہ سرکاری فنڈ فراہم ہوں تو اس کو تھانہ چلانے کے نام پر بدعنوانی کا کھیل کھیلنے کاموقع نہیں ملے گا ساتھ ہی ڈی آئی جی‘ ایس ایس پی‘ ڈی پی او‘ ڈی ایس پی اور خاص کر ایس ایچ او کی تعیناتی صرف اور صرف میرٹ اور ایمانداری پر ہو تو وہ نہ صرف نظام بہتر چلائےگا بلکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تھانے میں ہر آنے والے کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے ‘اگر کوئی حکومت اہلکار یا ادارہ پولیس میں اصلاحات کا خواہاں ہے تو اس کا آغاز تھانے سے ہونا چاہئے کیونکہ عوام کا واسطہ تھانے سے پڑتا ہے ‘اصلاحات سے قبل یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس کے نظام میں بہتری آئے اورطریقہ کار مزید موثر ہو ‘ضروری ہے کہ ایماندار اور قابل افسران کی بطور ایس ایچ او تعیناتی کے ساتھ ساتھ محرر جو کہ تھانہ کے اندر دوسرا موثر افسر ہوتا ہے وہ بھی میرٹ پر تعینات ہو ‘محرر کیلئے بھی تجربہ کار ‘قابل اور ایماندار اور پڑھے لکھے کم از کم سب انسپکٹر رینک کے افسر تعینات ہوں ‘ایف آئی آر کا فرسودہ اور گھساپٹا طریقہ کار بدل کر آسان زبان اوربہتر لکھائی میں ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت ہے ‘دیکھتے ہیں کون افسران اور اہلکاروں کے مسائل حل کرنے کیساتھ ساتھ ان کو اس بات پر قائل کرتا ہے کہ وہ سب عوام کی خدمت کیلئے بھرتی کئے گئے ہیں ‘سارے پولیس والے اس معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم سب کے بھائی‘ دوست‘ رشتہ دار ہیں فرق صرف کالی وردی کا ہے جس کا اختیار چند فیصد اہلکاروں کو عام آدمی سے الگ کر دیتا ہے۔