پھول نگر:پشاور!

 قدرت کی رنگینیوں اور شاہکاروں سے محبت رکھنے والے باذوق افراد کے لئے ہر موسم میں کچھ نہ کچھ کشش کا سامان ہوتا ہے بالخصوص موسم بہار اور اِس کے بعد برسات کے موسمی پھولوں کی تزئین و آرائش اور منفرد و خاص تخلیقی انداز میں ترتیب و نمائش محض شوق یا مشغلہ نہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کا طریقہ (ہنر اور راز) بھی ہے۔ اِس مقصد کے لئے قائم غیرسرکاری تنظیم ’فلورا آرٹس سوسائٹی پاکستان‘ کی ملک بھر میں شاخیں قائم ہیں اور اِن تنظیم کے زیراہتمام رواں ہفتے پشاور میں 2 روزہ نمائش کا اہتمام کیا گیا‘ جس کی میزبان و سہولت کارخیبرپختونخوا کے محکمہ سیاحت و ثقافت کے فیصلہ سازوں کو یقین ہے کہ اِس طرح کی نمائشوں اور تقاریب کے ذریعے نہ صرف ملکی بلکہ غیرملکی سیاحوں کی توجہ حاصل کی جا سکے گی جبکہ خیبرپختونخوا میں سیاحتی کشش کے مقامات کی کوئی کمی نہیں اور بالخصوص جب بات پھولوں کی نمائش سے متعلق ہو تو ’پھولوں کے شہر‘ پشاور سے زیادہ بہتر (مناسب) انتخاب بھلا کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا ہے!؟پاکستان میں قریب چھ ہزار اَقسام کے پھول پائے جاتے ہیں‘ جن میں چنبیلی (جاسمین) قومی پھول ہے اور خاص بات یہ ہے کہ جنوب ایشیا میں پائے جانے والے کئی پھول ایسے بھی ہیں جن کی خاص اقسام صرف پاکستان ہی میں پائی جاتی ہیں اور وہ پاکستان یا اِس خطے سے منسوب ہیں۔ قدرت کی عنایات لائق توجہ ہیں کہ گرم پانی والے سمندر کی ساحلی پٹی سے لیکر 8 ہزار 611 میٹر بلند دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی ’K-2‘ پاکستان میں ہے اور یہاں کا درجہ¿ حرارت قراقرم پہاڑی سلسلے کے کئی حصوں میں سارا سال نکتہ¿ انجماد سے بھی کم (منفی صفر) جبکہ سبی (بلوچستان)‘ میانوالی (پنجاب) اور سندھ کے میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت 50 درجہ سنٹی گریڈ سے زیادہ رہتی ہے!


 اِس قدر موافق آب و ہوا سے دنیا کے کئی ممالک محروم ہیں جبکہ پاکستان میں سیاحت کی ترقی کے لئے کام کرنے والے حکومتی اداروں کے لئے دعوت فکر ہے کہ وہ پھولوں کی نمائش جیسے انتظامات یا تنظیموں کی سرپرستی کرکے پاکستان کی جانب اُن سیاحوں کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں‘ جو فلورا (پھولوں) اور فیونا (جانداروں) میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلورا آرٹس سوسائٹی پاکستان کی پشاور شاخ کے زیراہتمام ’پھولوں کی نمائش‘ میں لاہور اور کراچی کی شاخوں سے تعلق رکھنے والی بیشتر خواتین اراکین نے شرکت کی‘ جن پر اپنے اہل خانہ کی طرف سے دباو¿ بھی تھا کہ وہ کورونا وبا کی وجہ سے ایسی کسی مہم جوئی سے باز رہیں لیکن پھولوں سے محبت رکھنے والوں نے پھولوں کے شہر کا انتخاب کرنے کے بعد اپنے فیصلے سے رجوع نہیں کیا۔ رواں برس کی نمائش کا عنوان (تھیم) ’تاریخ و ثقافت‘ تھے اور اِس مرتبہ پھولوں کے ساتھ سیاحت کے فروغ کو بھی نمائش کی سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا۔

 یوں پاکستان بھر کی خوشبوئیں پشاور میں جمع ہوئیں۔ رنگ برنگے پھول اور تاریخ و ثقافت سے جڑی تقاریب نے پورے ماحول کو چار چاند لگا دیئے‘ ان سبھی مہمانوں کو ’پشاور کلب‘ کی تاریخی عمارت میں قیام و طعام کی سہولیات دی گئیں۔ چند شرکا نے اپنے عزیزواقارب کے ہاں ٹھہرنے کو ترجیح دی جبکہ نمائش کے لئے اسلامیہ کالج کے سبزہ زاروں کا انتخاب کیا گیا جنہیں رنگ برنگی روشنیوں سے منور کیا گیا تھا اور ایک عجیب سماں تھا کہ اسلامیہ کالج کی عمارت اور اُس کے سائے میں رنگ برنگے پھول ایک ایسے پشاور کا حسین چہرہ پیش کر رہے تھے جہاں کی ہوائیں کبھی عموماً معطر رہتی تھیں لیکن شرکا کے لئے سب سے یادگار اور حسین تجربہ اندرون شہر کی سیر تھی جہاں پشاور کی سرتاج عمارت ’گورگٹھڑی‘ میں مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے والوں کو اِس بات پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایک مربع کلومیٹر اور چاردیواری کے اندر آثار قدیمہ کے نمونے‘ عجائب گھر‘ سبزہ زار‘ سرائے (مسافر خانہ)‘ جامع مسجد اور مندر موجود تھے اور یہ پشاور میں مختلف مذاہب کے ایک ساتھ رہنے اور مذہبی ہم آہنگی کی انوکھی مثال تھی۔ گورگٹھڑی کا مقام 3 قبل مسیح پشاور کے رہائشی علاقے کے ایک قدرے بلند مقام پر قائم کیا گیا تھا جہاں بدھ مت کی عبادت گاہ اور بعدازاں ہندو مندر تعمیر ہوا۔ آج مذکورہ مندر (شیو ٹیمپل) کے مختلف حصوں میں مختلف ہندو عبادت گاہیں قائم ہیں‘ جہاں پورے پاکستان سے ہندو و سکھ یاتری (زائرین) مختلف مناسبتوں سے ہونے والے سالانہ اجتماعات میں شرکت کے لئے آتے ہیں اور کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے سے نہیں روکا جاتا۔