بھولا پریشان ہے مہنگائی غریب افراد کے بس سے باہر ہورہی ہے اب تو سفید پوش بلکہ کسی حد تک خوشحال لوگ بھی چیخ رہے ہیں ملکی معیشت حالیہ سالوں میں کسی قدر سنبھل رہی تھی مگر گزشتہ دو سالوں سے بدترین زوال کا شکار ہے۔ بہت سے لوگ دلیل دے رہے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے معیشت متاثر ہورہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کورونا سے بہت قبل معیشت زوال کی جانب تیزی سے روانہ ہوگئی تھی۔ مہنگائی اتنی ہے کہ بہت سے گھرانے دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھاسکتے۔ حالیہ دو سالوں میں جتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور جتنے گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نہ صرف حکومتی اداروں سے بلکہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے نجی شعبے کے ہزاروں افراد نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اوپر سے جو لوگ بے روزگار ہونے کے بعد احتجاج کرتے ہیں ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ صرف پشاور کی بات کی جائے تو حکومتی پالیسیوں اور بی آر ٹی کی تکمیل میں تاخیر سے یونیورسٹی روڈ صدر اندرون شہر، جی ٹی روڈ اور دیگر مقامات پر ہزاروں دکانیں اور کاروبار متاثرہوئے ہیں۔ بے شمار روزگار آئے روز نقصان کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں جبکہ ان میں کام کرنے والے نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں پٹرول کی قیمتوں میں چند دن کیلئے کمی کرنے کے بعد اچانک25 فیصد اضافے نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے اوپر سے سابقہ اور موجودہ حکومت کی عاقب نااندیشی کی وجہ سے ملکی ائرلائنز کے جہاز فضاﺅں سے زمین پر آگئے ہیں، یورپ، امریکہ اور کئی ممالک نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے لیکن سوشل میڈیا پر دیکھاجائے تو اب بھی لوگ حکومتی اقدامات کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ ان کو غلط فہمی ہے کہ جو اقدامات حکومت اٹھارہی ہے۔
اس سے جلد ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ پہلے کہتے تھے چھ ماہ کے بعد حالات میں تبدیلی آناشروع ہوجائے گی۔ 100 دن والی بات تو سب بھول گئے تھے۔ چھ ماہ بعد کہا کہ کم از کم ایک سال ہو جانے دیں، تبدیلی آجائے گی۔اب دو سال ہوگئے ہیں مگر بہتری کا کہیں دور دور تک نام ونشان نہیں۔ البتہ بہت سے شعبوں میں ابتری پہلی حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بھولا لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے دیتے تھک گیاہے اب اس کو بھی یقین ہوگیا ہے کہ سیاستدان چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں وہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور جب اقتدار حاصل ہوجاتاہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ یار دوستوں کو نوازنے کیلئے نہیںبلکہ عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے اقتدار میں آئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک جھوٹ بولاجاتا ہے۔ اپنے دعوﺅں کیلئے ایک سے ایک نیا جواز ڈھونڈاجاتاہے۔ سارا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈالا جاتا ہے کہ انہیں نظام ہی خراب ملا ہے اس لئے اس کو بہتر بنانے میں چند ماہ لگ جائیں گے۔ لیکن آخر کتنے ماہ؟ اب تو حکومت کا آدھا دور گزر جانے کو صرف چھ ماہ رہ گئے ہیں۔ تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ غریب اس طرح مہنگائی اوربے روزگاری کاشکار ہے۔ کھانے پینے کی اشیائ، کپڑے، جوتے، سکول کی فیسیں، پٹرول سب کی قیمتیں عام آدمی کے بس سے باہر ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ترین سطح پر ہے سونا تو اب متوسط گھرانوں کی پہنچ سے بھی دور ہوگیا ہے۔ اب تو شادی بیاہ میںمتوسط گھرانوں کے لوگ بناوٹی زیورات ہی بنواسکیںگے۔
کاروباری شعبہ زوال کا ایسا شکار ہے کہ لوگ نقصان اٹھانے کی بجائے کاروبار بند کرنے کو تیار ہیں۔ ماضی میں جب کسی کی نوکری چلی جاتی تھی توجلد یا بدیرکسی دوسری جگہ ملازمت مل جاتی تھی آج کل ادارے ایسی بدحالی کا شکار ہیں کہ ایک جگہ سے نکالاجائے تودوسری جگہ نوکری بھی نہیں مل رہی۔ ایسے میں لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بھاری بھر کم بل لوگوں کی کمر توڑنے کیلئے کافی ہیں۔ لوگوںمیں اتنے غم وغصے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اب تک نجانے کیوںخاموش ہیں۔ ایک آدھ اپوزیشن لیڈر ہی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرر ہا ہے باقی خاموش بیٹھے ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں صحیح طورپر اپنا کردار ادا کریں تو حکومت بہت سی غلطیوں کی اصلاح کرلیتی ہے۔ عوام کو تھوڑا بہت ریلیف مل جاتا ہے لیکن اپوزیشن کی خاموشی اور ٹویٹر اور فیس بک پر خوشامدیوں کی تعریفوں کی وجہ سے شاید حکمرانوں کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ عوام کتنے پریشان ہیں۔بھولے جیسے لوگ اب سمجھتے ہیں کہ ملک میں جتنی جماعتیں تھیں سب کو آزمالیاگیا۔ تبدیلی کامزہ بھی چکھ لیاگیا۔ ان سیاستدانوں میں نہ تو عوام کے مسائل حل کرنے کی قابلیت ہے اور نہ جذبہ۔
عوام کے مسائل وہی لوگ حل کرسکتے ہیں جو واقعی عوام سے ہوں پڑھے لکھے اور باکردار ہوں اور جن کے دل میںعام آدمی اور ملک کیلئے واقعی کام کرنے کا جذبہ ہو نہ کہ صرف اور صرف کسی طرح کرسی حاصل کرنے کا لالچ۔ بھولے کو اب ان لوگوں پر غصہ آرہا ہے جو اندھی تقلید میںحکومتی پالیسیوں کو سراہ رہے ہیں ٹویٹر پر ٹرینڈ بنا رہے ہیں حالانکہ عام آدمی بھوک بے روزگاری اور مہنگائی سے مر رہا ہے۔ سیاسی وابستگی اپنی جگہ لیکن صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط نہ کہنے والے اس ملک اور عوام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں اب تو سننے میںآرہاہے کہ جو لوگ اتنے عرصے سے حکومتی ناکام پالیسیوں کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ رہے تھے وہ بھی مایوس ہوکر متبادل تلاش کر رہے ہیں خدا کرے کہ جو بھی ہو اس میںعوام اور ملک کابھلا ہو نہ کہ کسی خاص طبقے کا۔ بھولا بھی سوچ رہا ہے کہ موجودہ حکومت چند سال اوررہی اور ٹیم میں بہتر کھلاڑی آگے نہ آئے تو عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ معیشت کمزور ہوگی مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے غریب مزید غریب ہوگا مزید ادارے بند اور لوگ بے روزگار ہوں گے جبکہ اس وقت بھی عوام کی مایوسی آخری حدود کو چھورہی ہے۔