کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے قائم کمیٹی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاو¿ن کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں اور کورونا کے مصدقہ کیسز میں نمایاں کمی آگئی ہے‘ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے مطابق ایس او پیز پر عملدرآمد کے نتیجے میں کورونا کے تشویشناک حالت والے مریضوں میں 28فیصد کمی آئی ہے وزیراعظم عمران خان نے عالمی وباءکے خلاف آپریشن کےساتھ معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کےلئے سمارٹ لاک ڈاو¿ن کی حمایت کی تھی اس فیصلے پر تنقید بھی کی گئی تاہم اب پوری دنیا سمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کی طرف آرہی ہے‘این سی او سی کے مطابق دنیا بھر میں اس بات کااحساس کیا گیا کہ پورے ملک کو بند کرنا ممکن نہیں ہے صرف ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں بہت زیادہ کورونا کیسز سامنے آرہے ہیں‘پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد پڑوسی ملک بھارت مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کی نسبت کم ہے جاں بحق ہونےوالے مریضوں کی تعداد میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے جبکہ صحت یابی کی شرح ایکٹیو کیسز کے مقابلے میں پچاس سے ستر فیصد زیادہ ہے‘حقیقت یہ ہے کہ قدرت ہم پر مہربان ہے وگرنہ ہم نے ” آ بیل مجھے مار“ والی کہاوت کو سچ ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا‘آج بھی بازاروں اور کاروباری مراکز میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بغیر ماسک پہنے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں سینی ٹائزر استعمال کرنے سے ہمارا سرچکراتا ہے اس کی بو سے بھی متلی آنے لگتی ہے سماجی فاصلے قائم کرنا ہم اپنی روایات کے منافی گردانتے ہیں خواہ اس کے نتیجے میں ہمیں جان کے لالے ہی کیوں نہ پڑ جائیں‘کورونا کیسز میں رفتہ رفتہ کمی کے بعد حکومت نے تعلیمی سرگرمیاں بھی ستمبر میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وفاق المدارس نے ایس او پیز پر عمل درآمد کی یقینی دہانی کے ساتھ امتحانات کا آغاز کردیا ہے۔
سرکاری دفاتر بھی کھلنے لگے ہیں اور وہاں ایس او پیز کے تحت پبلک ڈیلنگ شروع کردی گئی ہے تاہم ہسپتالوں کی او پی ڈیز گزشتہ پانچ مہینوں سے بند ہیں جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے‘ پشاور کے تین تدریسی ہسپتالوں سمیت صوبہ بھر کے ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی کور دیا جارہا ہے اور او پی ڈی کے مریض بھی شعبہ ایمرجنسی کی طرف رجوع کررہے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے ساتھ ڈیلنگ متاثر ہورہی ہے ‘لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی او پی ڈی میں معمول کے مطابق دس سے پندرہ ہزار مریض روزانہ آتے رہے ہیں خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد کمپلیکس کی او پی ڈیز میں بھی روزانہ پانچ سے آٹھ ہزار مریض آتے تھے‘ او پی ڈیز کی بندش کی وجہ سے صرف پشاور کے تین ہسپتالوں میں روزانہ آنے والے بیس سے پچیس ہزار مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں‘ایل آر ایچ کے شعبہ ایمرجنسی کے سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں روزانہ چار پانچ سو کورونا کیسز کو نمٹانا پڑتا تھا اب بھی ڈیڑھ دو سو مشتبہ کورونا مریض ہسپتال آتے ہیں ‘جب او پی ڈی کے مریض شعبہ حادثات آتے ہیں تو انہیں صرف ڈاکٹری معائنے سے تسلی نہیں ہوتی۔
ان کا اصرار ہوتا ہے کہ لیبارٹری ٹیسٹوںکے ساتھ ان کا ایم آر آئی، سی ٹی سکین ، الٹراساونڈ اور ایکسرے بھی ضرور ہونا چاہئے‘انکار کی صورت میں وہ طیش میں آتے ہیں اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں‘ایسی صورتحال میں ڈاکٹرسیکورٹی کے مسائل سے دوچار ہیں ‘ڈاکٹروں اور طبی عملے پر تشدد کے واقعات آئے روز مختلف ہسپتالوں میں رونما ہورہے ہیں‘صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کو سرکاری ہسپتالوں میں ایس او پیز کے تحت او پی ڈی سروس شروع کرنے کےلئے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ شعبہ ایمرجنسی پر بوجھ کم ہوسکے اور ڈاکٹر کورونا کے مریضوں اور ایمرجنسی کیسز پر توجہ دے سکیں ڈاکٹروں کا یہ ماننا ہے کہ صرف کورونا سے شاذو نادر ہی کسی مریض کی موت واقع ہوتی ہے جاں بحق ہونےوالے نوے فیصد مریضوں کو کورونا سے پہلے عارضہ قلب، بلند فشار خون، ذیابیطس، گردے ناکارہ ہونے، اندرونی زخم اور دیگر بیماریاں لاحق ہوتی ہیں کورونا کی وجہ سے پہلے سے موجود بیماریاں شدت اختیار کرتی ہیں کورونا کی شدت کم کرنی ہے تو عارضہ قلب، ہائی بلڈ پریشر، شوگر گردوں کے امراض اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو میڈیکل چیک اپ کی سہولت فراہم کرنے کےلئے او پی ڈیز کھولنے ہوں گے۔