معروف ہے کہ عدالتوں کو نہیں بلکہ اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہئے بالکل اِسی طرح جمہوری طرزحکمرانی میں برسراقتدار سیاسی جماعت کو بیان بازی کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے عام آدمی کو اِس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے کہ حکومت ہر خاص و عام کے مفادات کی محافظ ہے‘ اِسی نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے چودہ جولائی کے روز وفاقی حکومت کو شوگر ملوں کے خلاف ’شوگر کمیشن رپورٹ‘ کی روشنی میں قانونی کاروائی کے آغاز کی اجازت دی اور کہا کہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین شوگرملوں کے خلاف بیان بازی نہیں کریں گے۔ ذہن نشین رہے کہ شوگر ملوں نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا تھا جسے عدالت عظمیٰ نے خارج کر دیا۔ کیا اِس کے پیشرفت کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت سیاسی و مالی طور پر ملک کے سب سے زیادہ بااثر کاروباری طبقے کے خلاف کاروائی کرے گی؟ ذہن نشین رہے کہ 21 فروری کو ملک میں اچانک چینی کی قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد حکومت نے معاملے کی چھان بین کے لئے خصوصی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ مذکورہ کمیشن کے سامنے تفتیش کے لئے پہلا سوال یہ تھا کہ ”کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے کم تھی جس کی وجہ سے طلب و رسد میں پیدا ہونےوالے فرق کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا؟ دوسرا سوال: شوگر ملوں کی پیداواری صلاحیت کیا ہے اور کیا اِس پیداواری صلاحیت کے مطابق چینی کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے؟ تیسرا سوال: کیا شوگر ملوں نے مہنگے داموں گنا خریدا جس کی وجہ سے چینی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا؟ چوتھا سوال: چینی کی فی کلو پیداواری لاگت کتنی ہے؟ چینی بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے 4 اپریل کو اپنی تفتیش کا پہلا مرحلہ مکمل کر کے عوام کے سامنے جو حقائق رکھے گئے اُن سے 3 بنیادی باتیں معلوم ہوئیں۔
1: شوگر ملوں میں سے اکثر کا تعلق ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف‘ مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی سے ہے۔ 2: چینی کے حالیہ بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنما کو ہوا اور 3: چینی بحران پیدا ہونے کی وجہ چینی برآمد کرنے کی اجازت دینا اور شوگر ملوں کو دی جانےوالی غیرضروری سبسڈی ہے‘ چینی بحران سے متعلق حقائق سامنے آ چکے ہیں اور 21 فروری سے شروع ہونے والے تحقیق و تفتیش کا عمل قریب پانچ ماہ کے سفر میں مختلف عدالتوں سے ہوتا ہوا‘ اب اُس مقام تک آ پہنچا ہے جہاں شوگر ملوں کےخلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ کیا ایسا عملاً ممکن ہو پائے گا جبکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جب انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والی سیاسی اشرافیہ‘ سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی ہوئی ہو؟ یہ سوال اپنی جگہ غور طلب ہے کہ کیا شوگر ملوں کے پاس اپنے خلاف ممکنہ قانونی کاروائی روکنے کے لئے آئینی آپشنز ختم ہو چکے ہیں؟سب کچھ داو¿ پر لگ گیا ہے۔ شوگر کمیشن رپورٹ صرف حکومت ہی کا نہیں بلکہ پاکستان میں جمہوریت‘ جمہوری پارلیمانی اداروں اور جمہوری طرزِحکمرانی کے ساتھ حکمراں سیاسی جماعت کی اصلاحاتی حکمت عملی کا بھی امتحان ہے ‘1988ءسے ہر منتخب و غیرمنتخب حکومت دور میں پارلیمانی جمہوریت اور انتخابی عمل ایک تسلسل سے جاری ہے‘پاکستان میں سیاسی عدم استحکام مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی ’غیرتسلی بخش کارکردگی‘ اصل مسئلہ ہے۔
اگر پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت کا موازنہ مغربی ممالک سے کیا جائے تو جو سیاسی نظام اور طرز حکمرانی مغرب کی ترقی کا باعث بنا ہے وہی اگر پاکستان میں خاطرخواہ کامیاب نہیں تو اِس کی وجہ جمہوریت کی نام لیوا غیرجمہوری سیاسی جماعتیں ہیں! قیام پاکستان کے وقت اُس وقت کے براعظم جنوب ایشیا میں صرف 2 ممالک ہی جمہوری تھے۔ ایک پاکستان اور دوسرا بھارت لیکن پاکستان میں جمہوریت ہر دن مضبوط ہونے کی بجائے ہر دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ انگریز بہادر ایک فعال نظام چھوڑ کر گیا تھا‘ جسے غیرفعال کر دیا گیا‘ قیام پاکستان کے وقت جنوبی کوریا جو کسی بھی شمار میں نہیں تھا لیکن اگر وہ سیاسی جمہوریت اور جمہوری طرزحکمرانی میں پاکستان سے آگے ہے تو اِس کے محرکات پر غور ہونا چاہئے۔
کیا ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت کے پیمانے پر پورا اُترتی ہیں؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے؟ سیاسی جماعتیں موروثی کیوں ہیں؟ نواز شریف کے بعد مریم اور آصف زرداری کے بعد بلاول کیوں ہے؟ تحریک انصاف نے پارٹی کے اندر جمہوریت لانے کی کوشش کی تو جماعتی انتخابات کا نگران ہی بھٹک گیا اور پھر اِس عمل کو روک دیا گیا‘ تحریک انصاف میں ہمیشہ پیراشوٹ کے ذریعے قیادت اُترتی ہے اور نچلے طبقے کے کارکنوں سے کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں جو سیاسی جدوجہد کی وجہ سے اعلیٰ قیادت تک پہنچا ہو! وقت ہے کہ جمہوری‘ سیاسی و معاشی استحکام لانے کےلئے کچھ ایسے اصول طے کئے جائیں کہ جس میں حکومتوں کے بدلنے سے حکمت عملیاں تبدیل نہ ہوں اور یہ اُسی صورت ہوگا جب چہرے نہیں نظام بدلیں‘جب نفع و نقصان اور سرمایہ دارانہ نظام نہیں بلکہ بنیادی جمہوریت پر یقین کامل ہو اور حرف آخر یہ ہے کہ جب بلدیاتی نظام اور بلدیاتی ادارے مضبوط ہوں۔