معاشرہ اوراساتذہ کاکردار

آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ وہ عملی زندگی میں کیابنناچاہتاہے تو دس میں سے شاید ہی کسی ایک کابھی جواب استاد بننے کے حوالہ سے ہواوراسی سے ہمارے اخلاقی اور معاشرتی انحطاط کاپتہ چلتاہے مادہ پرستی کازہر چونکہ پوری طرح سے ہماری رگوں میں اتر چکاہے اس لیے ہم ایسے پیشے یامیدان کاانتخاب کریں گے کہ جہاں سے ہمیں حصول زر کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں معلم یا استاد کامقام آج کیوں وہ نہیں رہا جو ہوا کرتاتھااور جو ہوناچاہئے تھا اس میں کسی حد تک اساتذہ بھی ذمہ دارہیں۔استاذ یا معلم کا لفظ کہنے کو تو چند حروف کا مجموعہ ہے لیکن یہ اپنے اندر پورے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ جو دنیا میں آپ کو حیرت انگیز ایجادات اور نت نئی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں یہ سب اس ایک شخصیت کے گرد گھومتی رہتی ہیں۔ معلم کی حیثیت ایک رہنما و معمار کی ہے۔ معلم ایک داعی ہوتا ہے جس کے کندھوں پر اللہ پاک نے بہت بڑی ذمہ داری رکھی ہے لیکن بہت سے سماج اور معاشروں میں اساتذہ کو صرف متعینہ مضامین پڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ ایک معلم کے فرائض میں اور بھی بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو اچھی تعلیم وتربیت سے روشناس کرکے قوم کے مستقبل کی تعمیر کرتا ہے اس لئے امید سے پ±رہوکر بڑی معذرت کے ساتھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ استاد کی نظر صرف بچوں کے نمبرات اور گریڈز پر نہیں بلکہ ان کی شخصیت سازی پر بھی ہونی چاہئے، صرف سوالوں کے جوابات یاد کرالینے اور خالی طوطے کی طرح تمام نصاب کو ہضم کرالینے سے تعلیم کا حق ادا نہیں ہوتا، اس حق کو ادا کرنے کے لئے حق گوئی اور حقائق کی تعلیم اور طلبہ کی صالح تربیت بہت ضروری ہے۔

 ورنہ پڑھ لکھ کر بھی یہ لوگ نئی مصیبت کھڑی کر سکتے ہیں جو سماج اور خود والدین اور اساتذہ کے لئے شرمندگی کا سبب بن سکتی ہیں۔ صرف مقررہ نصاب کو پڑھانا کافی نہیں بلکہ اخلاقیات کا نمونہ بھی پیش کرنا نہایت ضروری ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے معاشرے میں تو اساتذہ کی ذمہ داریاں اور بھی دو چند ہوجاتی ہیں۔ اساتذہ کی پوری توجہ کے بغیر کسی بھی طالب علم کی شخصیت کی مکمل نشوونما نہیں ہو سکتی۔ یاد رکھیں کہ تعلیم ہی وہ واحد وسیلہ ہے جو انسان کو شرف آدمیت بخشتا ہے اور صالح کردار کے بغیر علم صرف دماغ کا تعیش اور دل کا نفاق ہے۔ اگر تعلیم کے ساتھ اخلاق و عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے معاشرے میں خاص طور سے اساتذہ کو طلبہ کے لئے بذات خود حسن اخلاق کا نمونہ ہونا چاہئے اس لئے کہ علم کے ساتھ اساتذہ کی عادات واطوار بھی طلبہ کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ استاد کی شخصیت براہ راست بچوں کی شخصیت پراثر انداز ہوتی ہے۔ اسلام کے نزدیک معیاری تعلیم وہی ہے جس کے نتیجے میں انسان خودشناسی اور خدا شناسی سے ہمکنار ہو ورنہ وہ ایک اچھا ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، سائنس داں یا کچھ بھی بن جائے لیکن معاشرے کا اچھا انسان نہیں بن پائے گا اور نہ اس کو آنے والی دنیا میں کامیابی ملے گی۔علامہ اقبال اپنے نوجوانوں کو شاہین پرندے سے تعبیر کرتے ہیں۔

 جو عیش و آرام کی بجائے پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی گزارتا ہے، جو مردہ شکار نہیں کھاتا، اپنا شکار کرکے کھاتا ہے جو ایک باغیرت اور بہادر پرندہ ہے۔ قابلیت بہت اہم چیز ہے لیکن صرف قابلیت کافی نہیں ہے، شرافت اور حسن اخلاق بھی ضروری ہے۔ قابلیت کے ذریعے تعلیم کا معیار بلند ہو گا اور شرافت واخلاق کی وجہ سے تعلیم ثمر بار ہو گی اور طالب علم بھی سرخرو ہو گا کیونکہ استاد کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے جو معاشرے کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور مسموم مادے کو خود جذب کر لیتا ہے۔ انہی قربانیوں کے پیش نظر اساتذہ کا احترام بھی ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ انہیں روحانی باپ گردانا گیا ہے جو جسمانی باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی، وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ اساتذہ کو حاصل ہے وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد ایسا مینارِ نور ہے جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک ایسی سیڑھی ہے جو ہمیں ترقی کی معراج پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔