پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں سیاست اور جمہوریت جس تجرباتی دور سے گزر رہی ہے‘ اُس سے وابستہ جمہور کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں اور اگرچہ ملک کے ساتھ ایک بنا بنایا انتظامی ڈھانچہ بھی پاکستان کے حصے میں آیا لیکن اُس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا اور آج ہمارا سیاسی‘ جمہوری اور ملک کا انتظامی ڈھانچہ ایسی خرابیوں کا مجموعہ بن چکا ہے کہ اِن کی اصلاح کے لئے اگر مستفید ہونے والے اوپری طبقات کا قبلہ درست کرنے کی کوشش کی جائے تو شدید مزاحمت دیکھنے میں آتی ہے اور اگر اِس نظام سے مایوس لوگوں کا شمار کیا جائے تو وہ ملک کے ساٹھ فیصد سے زیادہ اور ہر دن اِن کی تعداد بڑھ رہی ہے! جمہوریت ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ملک میں یہ اُس وقت تک پنپ نہیں سکتی جب سازگار ماحول فراہم نہ کیا جائے اور اِس سلسلے میں پہلی ضرورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں (اپنی ساخت و انفرادی و اجتماعی حیثیت میں) موروثی اور نسلی لسانی و مذہبی شناختوں سے بالاتر ہونی چاہئیں کیونکہ اِن کے باعث قومی یک جہتی پیدا ہونے کی بجائے طبقات‘ امتیازات اور اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔
اختلاف رائے کی گنجائش نہیں رہی اور معاشرے کی ہر سطح پر برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ افسوس کہ اِس غیرموافق ماحول میں غربت و جہالت اور عوام کی محرومیوں میں ہر دن اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ سیاسی جماعتوں اور طرزحکمرانی سے وابستہ اُن آئینی ’ذمہ داریاں‘ کو ادا نہیں کیا جا رہا‘ جن کا ذکر خوبصورتی کے ساتھ آئین کی دستاویز میں بند اور محدود ہو کر رہ گیا ہے! پاکستان تنہا نہیں بلکہ اِس جیسے کئی ممالک میں آزادی اور جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہ پہنچنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاست جمہوریت اور سماج نے دوغلا پن اُوڑھ رکھا ہے۔ جمہوریت قطعی طور پر ایسے طرزِحکمرانی کا نام نہیں کہ جس میں جھوٹ پر سچ اور سچ پر جھوٹ کا شائبہ ہو‘قیام پاکستان کی تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اِمتیازات اور تعصبات سے آزادی حاصل کی جائے اور ایک طویل قربانیوں سے بھری جدوجہد کے بعد جو کچھ حاصل ہوا اگر اُس کے انگ انگ سے امتیاز و تعصب چھلک و جھلک رہا ہے تو مقام فکر ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد فراموش ہوتا چلا جا رہا ہے۔ غیر ملکی نوآبادیات کی رخصتی سے پیدا ہونے والے خلا کو ثقافتی حقوق‘ خصوصی مراعات‘ معاشرتی اور ساختی عدم مساوات‘ جاگیرداروں‘ نوابوں اور مذہبی قیادت نے پُر کرنے کی کوشش کی لیکن ایک صدی سے زائد عرصے تک حکمراں رہے استعمار کے داغ دھونے کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جا سکے۔
پاکستان کے تناظر میں حکمرانی اور حکمراں کردار اُس ماضی سے نہیں نکل سکے جس سے علیحدگی کو آزادی کا بنا سوچے سمجھے آزادی کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے‘بانی پاکستان نے گیارہ اگست اُنیس سو سینتالیس کو دستور ساز اسمبلی سے اپنے اہم خطاب (جسے سب سے اہم کہنا چاہئے) میں‘ نئی ریاست کا نقشہ پیش کیا۔ قائداعظم بظاہر قومی قانون ساز اور فیصلہ ساز ایوان کے اراکین سے مخاطب تھے لیکن درحقیقت وہ تاریخ کو گواہ بنا کر اپنی ایک ذمہ داری سے عہدہ برآءہو رہے تھے اور بالخصوص جب اُنہوں نے یہ کہا کہ ”آپ کی پہلی ذمہ داری نئی ریاست کے لئے آئین سازی کرنا ہے۔“ تو پاکستان کو پہلا آئین بنانے میں 9 سال لگے حالانکہ اِسے بانی¿ پاکستان کی جانب سے پہلی ترجیح قرار دیا گیا تھا۔ یہ بات تب اور آج اہم نہیں رہی کہ قائد اعظم پاکستان کو بطور ملک کیسا دیکھنا چاہتے تھے؟ وہ استعمار کے داغ اور عدم مساوات کو مستقل طور پر آئینی شقوں‘ بین المذاہب ہم آہنگی‘ قانون کی بلاامتیاز حکمرانی اور سب کے لئے بڑھ کر ‘مساوی سلوک اور اہلیت (میرٹ) کی بنیاد پر مساوی مواقعوں‘ کے ذریعے ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پاکستان میں اُنیس سو پینتیس کا صوابدیدی‘ آمرانہ اور غیر جمہوری نوآبادیاتی قانون لاگو رہا جو ایک ایسا طرز حکمرانی ہے‘ جس نے آزادی کی معنویت اور مقصد گہنا کر رکھ دیا ہے۔