مویشی منڈیوں سے متعلق قواعد و ضوابط (SOPs) کی کھلم کھلا خلاف ورزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ایک طرف منڈیوں میں گنجائش سے زیادہ ہجوم اور احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے تو دوسری طرف حسب سابق مقررہ منڈیوں کے علاوہ شہری و دیہی علاقوں میں ’غیرسرکاری مویشی منڈیاں‘ قائم ہیں‘ جن کی موجودگی کے بارے میں ایک ہی سانس میں اقرار اور دوسری سانس میں انکار کرنے والی ضلعی اِنتظامیہ کی ’اچھی کارکردگی‘ ذرائع ابلاغ کی حد تک محدود نظر آتی ہے۔ پشاور کے مختلف بازاروں میں (راہ چلتے) قربانی کے لئے مال مویشیوں کی خریدوفروخت اِن دنوں کے معمولات کا حصہ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو¿ کے حوالے سے حکومت اور طبی ماہرین کی ہدایات اور اندیشوں کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ کورونا وبا سے متعلق گمراہ کن تصورات کا ازالہ ہونا چاہئے۔ پہلا تصور: ’کورونا وبا‘ کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ دوسرا تصور: ’کوورنا وبا‘ نزلہ زکام جیسی عمومی بیماری ہے جو اگر لاحق ہو بھی جائے تو خودبخود ختم ہو جاتی ہے اور تیسرا تصور: حکومت ’کورونا وبا‘ سے متعلق خوف و ہراس کا ماحول بنائے رکھنا چاہتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی بھی خطرہ نہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ خیبرپختونخوا میں پائے جانے والے اِن عمومی (گمراہ کن) تصورات کے بارے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’عالمی ادارہ¿ صحت‘ نے چند حقائق جاری کئے ہیں‘ جن سے آگاہی ہر خاص و عام کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے متاثرہ افراد میں اکثریت مردوں کی ہے اور خواتین بہت ہی کم تعداد میں اِس پراسرار وبا سے انتہائی متاثر ہوئی ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے چند اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں خواتین کے متاثر ہونے کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ قبل ازیں ضلع پشاور کورونا وبا کا مرکز تھا لیکن عالمی ادارہ¿ صحت کے مطابق ’باجوڑ‘ اور ’صوابی‘ کے اضلاع کورونا متاثرین میں سرفہرست ہیں۔
دوسری حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ کورونا وبا سے متاثر ہونے والے 2 ہزار ڈاکٹروں میں سے 18 کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ صحت یاب ہونے والوں کی شرح قریب 70فیصد ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ کورونا وبا سے خیبرپختونخوا میں گیارہ سو سے زیادہ افراد اجاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 798 مرد اُور 289 خواتین شامل ہیں جبکہ کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 31 ہزار سے زیادہ ہے جن میں 8 ہزار 7 سو کے قریب خواتین ہیں لہٰذا یہ تصور کہ کورونا وبا خواتین کے لئے خطرہ نہیں اپنی ذات میں پوری سچائی نہیں۔ خواتین کے انتہائی کم تعداد میں متاثر ہونے کی ایک وجہ ٹیسٹنگ تک رسائی بھی ہے کہ جہاں ایک ٹیسٹ کی قیمت دس ہزار روپے ہو اور جہاں ٹیسٹنگ کی سہولت صرف شہری علاقوں کی حد تک موجود ہو‘ وہاں خواتین کے متاثر ہونے اور اموات کا درست شمار ممکن نہیں ہوسکتا۔ المیہ ہے کہ صحت و تعلیم کے حوالے سے خواتین پہلے ہی حکومتی و سماجی ترجیح نہیں اور کورونا وبا نے خواتین کو مزید دیوار سے لگا دیا ہے!عالمی ادارہ¿ صحت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق 63فیصد مرد جبکہ 27فیصد خواتین کی اموات کورونا وبا سے ہوئی ہیں جبکہ کورونا وبا سے متاثرہ افراد میں 72فیصد مرد اور 28فیصد خواتین ہیں‘ جو غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا میں کورونا سے مرنے والوں میں 10سے 20 سال کی عمر والوں کی تعداد 1 فیصد ہے یعنی سب سے کم خطرہ اِس عمر (ایج گروپ) کے لوگوں کو ہے۔ اِس کے بعد نسبتاً محفوظ 21 سے 30 سال عمر کے لوگ ہیں جن سے تعلق رکھنے والے 2 فیصد متاثرہ لوگوں کی اموات ہوئی ہیں۔
31 سے 40 سال عمر کے 6فیصد‘ 41 سے 50 سال کے 17فیصد‘ 51 سے 60 سال کے 31فیصد‘ 61 سے 70سال کے 29فیصد‘ 71 سے 80سال کے 10فیصد‘ 81سے 90 سال کے 3 فیصد اُور 91 سے 100 سال کے 2 فیصد متاثرہ افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ ضلع پشاور کے قریب گیارہ ہزار کورونا متاثرین میں سے 522 اموات کے باعث پشاور اموات کے لحاظ سے سرفہرست ہے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو اہل پشاور کو مدنظر رکھنا ہے کہ ایک تو پشاور میں کورونا وبا پھیلنے کی شرح زیادہ ہے تو دوسری طرف اموات بھی یہیں زیادہ ہوئی ہیں اور اِس صورتحال میں اگر مویشی منڈیوں کی بھیڑبھاڑ کا حصہ بنا گیا تو اندیشہ ہے کہ کورونا وبا کے پھیلنے اُور عیدالاضحی کے بعد جبکہ حکومت درسی و تدریسی سرگرمیوں کو بحال کرنا چاہتی ہے تو عیدالاضحی میں بے احتیاطی کی وجہ سے ماہ ستمبر میں (خدانخواستہ) کورونا کیسیز زیادہ سامنے آئیں گے اور حکومت کے لئے چاہتے ہوئے بھی تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ عوام کو اِس بات کا باور کرانا ہوگا کہ حالات اگر کسی کے ہاتھ (کنٹرول) میں ہیں تو وہ عوام ہی ہیں اُور اِنہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ لااُبالی پن اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کرنے کے سبب کورونا وبا پھیلتا چلا جائے گا جبکہ سماجی دوری (احتیاطی تدابیر) عملاً اختیار کر کے کورونا وبا کا ممکنہ پھیلاو¿ باآسانی روکا جا سکتا ہے۔