گلوبل وارمنگ کے خطرناک نتائج کے بارے میں مختلف اداروں کی طرف سے بار بار انتباہ کیا جارہا تھامگر کسی نے توجہ نہیں دی۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا چترال کے وادی گولےن مےں گلیشیر پھٹنے سے سےلاب نے پوری وادی میں تباہی مچا دی،گندم اور جو کی کھڑی فصلےں ،پھلوں اور سبزیوں کے باغات ،درجنوںرہائشی مکانات ،مساجد،پل، پشتے، آبپاشی کی نہریں ، پینے کے پانی کی پائپ لائنیں اور سڑکیں سےلاب میں بہہ گئیں۔ وادی کا زمےنی رابطہ دوسرے علاقوں سے منقطع ہوگیا تقرےباً پانچ سو گھرانوں پر مشتمل وادی گولےن کی آبادی محصور ہو کر رہ گئی ، 108 مےگاواٹ گولےن گول بجلی گھر کی نہر کے ہےڈ کو شدےد نقصان پہنچا جس کی وجہ سے گولین گول بجلی گھر بند کر دیا گیااور پورا چترال تاریکی میں ڈوب گیا مکانات سیلاب برد ہونے کی وجہ سے درجنوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے ہیں مواصلات کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے امدادی کاروائیوں میں بھی مشکلات درپیش ہیں وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اقلیتی امور وزیرزادہ نے صوبائی حکومت سے امدادی ٹیموں کی رسائی کے لئے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مزید سیلاب کے خطرے کے پیش نظر نشیبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔افغانستان کے ساتھ ملحقہ علاقے ارندو اور چترال ٹاﺅن کے علاقہ دنین میں بھی سیلاب سے کافی نقصان ہوا ہے۔موسمی تغیرات کی وجہ سے چترال کے تین درجن گلیشیرز کو خطرناک قرار دیا گیا ہے جن میں شیشی ، ارسون،گولین ، ریشن ، بروم ، بونی ، تریچ ، سنوغر، لاسپور، کھوژ اور یارخون کے بعض علاقوں سے منسلک گلیشیرز شامل ہیں چترال کی وادی اب تک انہی گلیشیرز کی وجہ سے سرسبز اور آباد ہے مگر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے وادیوں کو سیراب کرنے والے یہی گلیشیرز اب تباہی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیںگزشتہ دس سالوں کے اندر چترال کے مختلف علاقوں میں گلیشیرز پھٹنے اور سیلاب آنے سے وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
ارسون، ایون، گولین، ریشن، بونی، مژگول، سنوغر، کھوژ اور بریپ کے علاقوں میں سیلاب سے تباہی ہوئی ہے جب بھی آسمان پر کالے بادل نظر آتے ہیں گلیشیائی علاقوں کے لوگ سامان سمیٹ کر نقل مکانی کے لئے تیار ہوجاتے ہیں دیوہیکل پتھروں اور گاڑھے پانی کا سیلاب جہاں سے گزرتا ہے راستے میں آنے والی ہر چیز کو ملیامیٹ کردیتا ہے اور گاﺅں کے گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔بے شک قدرتی آفت کو روکنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا مگر مناسب حفاظتی انتظامات کے ذریعے جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکتا ہے یا نقصانات کوکم کیاجاسکتا ہے ۔گلوب، این ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کی طرف سے بار ہا الرٹ جاری ہونے کے باوجود گلیشیائی علاقوں میں آبادی کو محفوظ بنانے کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں کے اندر ارسون، ایون، بمبوریت، گولین، ریشن، سنوغر اور بریپ کے دیہات سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن لوگوں کی تیار فصلیں ، پھلوں کے باغات، سفیدے کی عمارتی لکڑیاں، مکانات اور دکانیں تباہ ہوئی تھیں وہ اب تک آباد نہیں ہوسکے۔ان علاقوں کی کافی آبادی مستقل خطرے کے پیش نظر نقل مکانی کرچکی ہے۔گلیشیرز پھٹنے کی ایک وجہ تو عالمی سطح پر حدت میں اضافہ ہے تاہم مقامی سطح پر اس کی دو اہم وجوہات ہیں جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور پہاڑی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں بکریوں کو چرانا شامل ہے۔
لوگ اپنی سہولت کے لئے مویشی گوجر طبقے کے حوالے کرکے گھوڑے بیچ کر سوجاتے ہیں گوجر برادری کے لوگ نہ صرف مقامی آبادی سے مویشیوں کو چرانے کا بھاری معاوضہ لیتے ہیں بلکہ اپنے ریوڑ کو کئی مہینوں تک پہاڑی چراگاہوں میں چراتے ہیں جب بارش ہوتی ہے تو مویشیوں کی اُڑائی ہوئی دھول سیلاب کی صورت میں آبادی پر نازل ہوتی ہے اور وسیع پیمانے پر تباہی مچاتی ہے۔حکومت، انتظامیہ اور مقامی لوگ باہمی مشاورت سے سیلاب کی وجوہات کا تدارک کریں تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے جنگلات کے تحفظ کی فریاد کرنا صدا بہ صحرا کے مصداق ہے کیونکہ جن اداروں اور افراد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ان کے حوالے سے” بھیڑیے کے ساتھ مل کر شکار کرنے اور مالک کے ساتھ مل کر رونے “ کی کہاوت صادق آتی ہے جس کمین گاہ سے تیر برسائے جارہے ہیں وہاں اپنے ہی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں یہاں آو ے کا آوا بگڑا ہوا ہے جانے کب کوئی آئے اور اس ادارے کا قبلہ درست کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمی تغیرات کے بہت سے عوامل ہیں تاہم جنگلات کی کٹائی اور کسی بھی علاقے میں درختوں کی کمی کے اثرات اس حوالے سے کافی نمایاں نظر آتے ہیں۔