سوشل میڈیا:روشن پہلو

 اِنفارمیشن ٹیکنالوجی ’مشکل‘ نہیں ’مشکل کشا‘ ہے لیکن یہ مکمل حقیقت نہیں‘ پاکستان میں عمومی تاثر ’گمراہی کا سبب‘ ہے کہ کسی بھی شعبہ¿ زندگی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیدا ہونے والی مشکلات اُس کے عمومی اور روائتی طور طریقوں‘ تجربات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ٹیکنالوجی ’غیرروائتی انداز میں فکر و عمل ‘ کا نام ہے‘ جسے ہمہ وقت رہنما اور رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے ‘کون نہیں جانتا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت وقت اور جغرافیائی سرحدوں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جو کہ بنیادی طور پر ’سہولت کاری‘ جیسا کلیدی کردار اَدا کر رہی ہے اِس کی بدولت انسانی معاشروں کے سماجی‘ سیاسی‘ درسی و تدریسی‘ تحقیقی‘ طبی‘ معلوماتی اور معاشی و اقتصادی معمولات تبدیل ہو رہے ہیں‘ باالخصوص جب ہم صحافت کے تناظر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اِس کے استعمال سے نتائج یعنی سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کے حاصل وصول کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا حسب ضرورت‘ انتخاب‘ پسند اور ترجیح جیسے مدارج تو طے کر گئی ہے لیکن اِس سے متعلق قومی حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔

 دعوت فکر ہے کہ سوشل میڈیا کے شعوری (بامقصد) استعمال کے لئے حکومت اور نجی اِدارے اِنفرادی و اِجتماعی سطح اور شراکت داری ہونی چاہئے‘سوشل میڈیا خودرو نہیں‘ سوچ‘ سمجھ بوجھ اور منصوبہ بندی جیسی تین ضروریات پیش نظر رہنی چاہئے‘ ’سوشل میڈیا‘ کا صحافت اور صحافت کے ’سوشل میڈیا‘ کے مختلف شعبوں پر الگ الگ اثرات کو سمجھنے اور اِن کی اخلاقیات کے ’معلوم تعین‘ کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلا تعمیری پہلو: سوشل میڈیا سے قبل اخبارات‘ جرائد اور ٹیلی ویژن چینلز یک طرفہ اِظہار کا ذریعہ تھے‘ جنہیں سوشل میڈیا نے دو طرفہ اظہار کی مدد سے زیادہ مو¿ثر بنا دیا ہے ۔دوسرا تعمیری پہلو: سیاسی رہنماو¿ں اُور صحافیوں کی اکثریت اظہار کے لئے سوشل میڈیا کے مقبول ذریعے ’ٹوئیٹر ‘ سے استفادہ کر رہی ہے‘ ٹوئیٹر کا باضابطہ پہلا دن 15 جولائی 2006ءکے روز 13 سال قبل ہوئی تھی اُور فروری 2020ءمیں جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ٹوئیٹر کے فعال صارفین کی تعداد 32 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ ہے‘ جن میں امریکہ کے صدر سے لیکر پاکستان و بھارت کے وزرائے اعظم اُور دنیا کے سبھی ممالک کے فیصلہ سازوں کی کسی نہ کسی صورت موجودگی اِس حقیقت کا بیان ہے کہ سیاست ہو یا صحافت‘ اظہار کے لئے سوشل میڈیا ہی پہلا انتخاب اُور ترجیح بن چکی ہے۔

تیسرا تعمیری پہلو: سوشل میڈیا نے ذرائع ابلاغ کے نئے اسلوب متعارف کروائے ہیں جیسا کہ بز فیڈ (Buzz Feed) اُور لیڈ بائبل وغیرہ جبکہ خبروں‘ اطلاعات اور معلومات تک رسائی کے لئے نت نئی سہولیات کا اجراءمسلسل ہو رہا ہے‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ وجود میں آنے والے ’ذرائع ابلاغ کے نئے ادارے‘ صرف اور صرف سوشل میڈیا کا احاطہ کرتے ہیںجن کے مطالعے سے سوشل میڈیا کے رجحانات اُور مقبول اسلوب کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی سمجھنا چاہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا کی بدولت جو اپنی طرز (نوعیت) کی ”انوکھی مشکل“ پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب خبروں کی کمی نہیں رہی بلکہ بہتات ہو گئی ہے اور اِس ”لمحہ بہ لمحہ خبرنگاری“ نے پیشہ ور صحافیوں کے شانہ بشانہ سوشل میڈیا صارفین کو لاکھڑا کیا ہے جو ایک دوسرے کے ”مدمقابل“ نہیں بلکہ ایک دوسرے کی خدمات‘ تجربے اُور رسائی سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اُور ایسی سینکڑوں ہزاریں مثالیں موجود ہیں‘جن سے تعمیری و تحقیقی صحافت نے جنم لیا ہے‘ سوشل میڈیا سے قبل کسی خبر کی تصدیق کے لئے ادارہ جاتی ساکھ کو دیکھا جاتا تھا اور اب کسی خبر کی ذیل میں ’آن لائن تبصروں‘ سے اُس کے مندرجات کی سچائی اور اُن سبھی ضمنی پہلوو¿ں سے شناسائی حاصل کی جاتی ہے ۔ مختصراً سوشل میڈیا کے 3 تعمیری پہلوو¿ں (آزادی¿ اظہار‘ انتخاب و ترجیح اُور مجموعات پر مبنی نئے اسلوب) کا احاطہ ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین (بشمول ذرائع ابلاغ سے جڑے صحافتی اِداروں اور پیشہ ور صحافیوں) کو اِس بارے میں سوچنا ہوگا کہ .... ”سوشل میڈیا کے مستقبل میں صحافتی اداروں اور پیشہ ورانہ (تربیت یافتہ) صحافیوں کی اہمیت و کردار کیا ہوگا؟