دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا خواب طویل انتظار کے بعد شرمندہ تعبیر ہونے لگا ‘موجودہ حکومت نے منصوبے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیاہے ‘ دیامربھاشا ڈیم منصوبے سے ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا ‘دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سکیورٹی کیلئے نہایت اہم منصوبہ ہے، یہ منصوبہ 2029 میں مکمل ہوگا ‘ڈیم سے 12 لاکھ 30 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہو سکے گی ‘ دیامر بھاشا کے بجلی گھر سے نیشنل گرڈ کو ہر سال 18 ارب یونٹ پن بجلی سپلائی ہوگی ‘منصوبے پر مجموعی طور پر 14سو ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا اور غازی بروتھاپن بجلی گھروں کی سالانہ پیداوار پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور تربیلا ڈیم کی عمر میں مزید 35 سال کا اضافہ ہوجائے گا‘یہ منصوبہ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم سے تقریباً315 کلومیٹر بالائی جانب جبکہ گلگت سے تقریباً 180 کلو میٹر اور چلاس شہر سے 40 کلومیٹر زیریں کی جانب تعمیر کیا جا رہا ہے ‘ اس منصوبے کے تین بنیادی مقاصد ہیں جن میں زرعی مقاصد کیلئے پانی کا ذخیرہ، سیلاب سے بچاﺅاور کم لاگت پن بجلی کی پیداوار شامل ہیں۔ واپڈا کے مطابق دیا مر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے کنسلٹنسی سروسز کا 27 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ روپے کا ٹھیکہ دیا ‘مر بھاشا کنسلٹنٹس گروپ نامی اشتراک کار کو دیا گیا ہے ‘ اس کنسلٹنٹ گروپ میں 12 کمپنیاں شامل ہیں۔
جن کی مرکزی کمپنی نیسپاک ہے ‘175 ارب روپے ڈیم کے لئے زمین حاصل کرنے اور ان کی ادائیگیوں، متاثرین کی آباد کاری اور مقامی ترقی کے لئے مختص کئے گئے ہیں ‘791 ارب روپے دیامر بھاشا ڈیم کی دیگر ضرورتیں پوری کرنے کے لئے مختص کئے گئے ہیں‘480 ارب روپے تانگیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے مختص ہیں۔ واپڈا کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف ڈیرہ اسماعیل خان کی 6 لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت ہو گی بلکہ مجموعی طور پر 3 ملین ایکڑ زرعی رقبہ بھی سیراب ہو سکے گا ‘ ڈیم کی تعمیر سے 30 دیہات اور دو ہزار دو سو گھرانے متاثر ہوں گے جن کی مجموعی آبادی 22 ہزارہے ‘ڈیم سے 500 ایکڑ زرعی زمین اور شاہراہ قراقرم کا سو کلومیٹر کا علاقہ زیرِ آب آئے گا ‘ ان نقصانات کی تلافی اور متاثرہ آبادی کی بحالی کے لئے 9مختلف منصوبے شروع کئے جائیں گے‘دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کی تاریخ میں پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ‘تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد آبی ذخائر اور پن بجلی کا اتنا بڑا منصوبہ شروع نہیں کیاجاسکا تھا ‘اس منصوبے کی آڑ میں گلگت بلتستان میں تین بار انتخابات ہوئے ہیں گزشتہ تین ادوار حکومت میں اس منصوبے کا افتتاح ہوا تھا مگر عملی کام شروع نہیں کیا جاسکا۔
اتفاق سے اس بار بھی دیامر بھاشا ڈیم کی صدائے بازگشت اس وقت سنائی دے رہی ہے جبکہ گلگت بلتستان کی منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوچکی ہے اور عبوری سیٹ اپ قائم کیا گیا ہے اور آئندہ چند مہینوں کے اندر گلگت بلتستان میں نئے انتخابات ہونے والے ہیں تاہم اس بار ڈیم کی تعمیر کے لئے حکومت کا عزم کافی پختہ نظر آرہا ہے اور قومی سلامتی اور تعمیر و ترقی کے ادارے بھی میگا منصوبے کی تعمیر میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیںیہ منصوبہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ خیبر پختونخوا کے لئے بھی گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے ‘قومی تعمیر کے اس اہم ترین منصوبے کے لئے ضلع کوہستان اور چیلاس کی بائیس ہزار کی آبادی نے قربانی دی ہے ‘متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے جامع منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے‘ تربیلاڈیم کے لئے تناول کی وسیع آبادی نے قربانی دی تھی‘متاثرین دیامربھاشا ڈیم پراجیکٹ کے ساتھ یہ زیادتی نہیں ہونی چاہئے‘اس میگا منصوبے سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے ‘حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ غیر فنی ملازمتوں میں متاثرین کو ترجیح دی جائے تاکہ ان کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکے ۔ دیامربھاشا ڈیم پراجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی کس تناسب سے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں تقسیم ہوگی اس کا بھی قبل از وقت تصفیہ ہوجائے تو آئندہ کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔