وباو¿ں اور بحرانوں سے پیار دانشمندی نہیں! خاکم بدہن اَندیشہ ہے کہ پاکستان پولیو کی طرح کورونا وبا کے خلاف بھی کامیابی نہیں چاہتا بالکل اُسی طرح جیسا کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں یہ وبا ہنوز موجود ہے اور معصوم بچوں کو شکار کر رہی ہے! عالمی ادارہ¿ صحت کی ویب سائٹ پر موجود روداد کے مطابق ”سال 1988ءسے 2017ءکے درمیان عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں پولیو متاثرین کی تعداد میں ”99فیصد“ کمی آئی اور 1998ءکے دوران دنیا میں پولیو متاثرین کی تعداد 3 لاکھ 20 ہزار تھی جو سال 2017ءکے دوران کم ہو کر صرف 22 رہ گئی۔ دنیا کے کئی ممالک نے انسداد پولیو مہمات سے خاطرخواہ نتائج حاصل کئے جبکہ پاکستان میں انسداد پولیو مہمات اور پولیو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں! ذہن نشین رہے کہ پولیو وائرس والے 3 ممالک میں پاکستان شامل ہے جبکہ افغانستان اور نائیجریا سمیت مذکورہ تینوں ممالک میں سالانہ ہزاروں کی تعداد میں بچے پولیو سے متاثر ہو رہے ہیں! پولیو لاعلاج مرض ہے‘ جس سے بچاو¿ کی واحد ممکنہ صورت یہ ہے کہ بچوں کو عمر کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو و دیگر بیماریوں اور جسمانی قوت مدافعت مضبوط کرنے والی اَدویات پلائی جائیں۔ یوں تو انسداد پولیو کی مہمات قیام پاکستان سے جاری ہیں لیکن پاکستان انسداد پولیو کی عالمی کوششوں کا باضابطہ حصہ 1994ءسے بنا اور تب سے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں قومی اور صوبائی سطح پر انسداد پولیو مہمات کے باوجود ’پولیو‘ کا خاتمہ نہیں ہو رہا۔ پولیو کے خلاف مہمات کی مسلسل ناکامی اور فیصلہ سازی و عملی اقدامات و نتائج میں فرق کی وجہ سے پاکستان کو عالمی خطرہ قرار دینے جیسی چھاپ لگ چکی ہے کہ یہ ایک پولیو برآمد کرنے والا ملک ہے۔
تعجب خیز اَمر ہے کہ اگر کسی بیماری یا وبا کے بارے میں پاکستانی ماہرین کی بات چیت سنی جائے تو لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی اِن کے علم تجربے اور مہارت میں ثانی رکھتا ہو لیکن سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں اور ذہین ترین فلسفیانہ امور کے ماہر دانشوروں کی عملی کارکردگی یہ ہے کہ نہ کوئی تعمیراتی منصوبہ پائیدار ہوتا ہے اور نہ پاکستان میں جو وبا بھی ایک دفعہ داخل ہو تو اس کاخاتمہ ہوتا ہے! یہی وجہ ہے کہ ماضی کے تجربات و نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ دونوں مشکلات سے بچاو¿ اور تحفظ جیسے اہداف بھی اُس وقت تک حاصل نہیں ہوں گے جب تک ’سیاسی و سماجی قومی یک جہتی‘ پیدا کرنے کے بارے میں غوروخوض نہیں ہوتا۔ عوام کا حکومت پر اعتماداُور حکومت کا عوام پر یقین کی بحالی کسی بھی وبائی صورتحال میں کامیابی کی پہلی ضرورت ہے تو کیا مستقبل قریب میں کچھ ایسی خلاف توقع ’قومی مفاہمت‘ ممکن ہو پائے گی‘ جس سے پاکستان میں سیاسی تنازعات و اختلافات وباو¿ں کے خاتمے یا قومی اہمیت کے حامل منصوبوں کی تعمیر کی راہ میں حائل نہ ہوں؟ سردست پہلی مشکل یہ ہے کہ ہر خاص و عام سے متعلق ہے جنہیں کورونا وبا کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھنا ہے جبکہ دوسری مشکل غربت اور پسماندگی میں زندگی بسر کرنے والوں کو قائل کرنا ہے کہ اُن کے نومود بچوں کو پیدائش کے پہلے ماہ‘ چھٹے ہفتے‘ دسویں ہفتے اور چودہویں ہفتے کے دوران ’انسداد پولیو‘ کی ادویات دینا ضروری ہیں۔
یہ ادویات گھر گھر جا کر مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن اگر کسی وجہ سے انسداد پولیو کے کارکن اُن کے گھروں پر دستک نہ بھی دیں تو قرب و جوار کے طبی مرکز سے رجوع کرنا بطور والدین اُن کے فرائض میں شامل ہے کہ جس طرح بچے کو کھانے پینے اور شدید موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کی ضرورت کا والدین کو اِحساس ہوتا ہے بالکل اِسی طرح ضروری ہے کہ کم سن بچوں کو مختلف بیماریوں بشمول پولیو سے بچانے کے لئے پیدائش کے فوراً بعد سے لیکر تیسرے ماہ تک پولیو کے قطرے وقفوں وقفوں سے پلائیںانسداد پولیو مخالفت اور مزاحمت کرنے والوں کو پولیو کے ناقابل تلافی نقصانات کا باور کرانا بالکل اُسی طرح مشکل ہے جس طرح کورونا وبا سے بچاو¿ کے لئے اِن ”ون ٹو تھری“ مشورے کو سُنا اَن سُنا کیا جا رہا ہے کہ 1: سماجی دوری اِختیار کی جائے۔ 2: ہر دو یا چند گھنٹوں کے بعد ہاتھوں کو کم سے کم بیس سیکنڈ تک کسی بھی صابن سے دھویا جائے اور 3: ماسک کے ذریعے چہرے کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ افسوس کہ پاکستان میں بیماریوں اور وباو¿ں سے متعلق عوامی شعور کی سطح خاطرخواہ بلند نہیں ہو رہی وہیں ذرائع ابلاغ کی کوششوں کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے! تو صرف مالی امور کا ہی نہیں بلکہ کارکردگی کے احتساب کی بھی اشد ضرورت ہے۔