دینی جماعتوں کی قومی مشاورتی اجلاس نے مشترکہ اعلامیہ میں یکساںقومی نصاب کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سیکولر اور لبرل ایجنڈے، امریکہ اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنائے گئے نصاب کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔اجلاس میں مطالبہ کیاگیا کہ نصاب سازی، درسی کتب کی تدریس او رنظامِ امتحان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قراردادِ مقاصد،آئین کے آرٹیکل 31اور دیگر دستوری شقوں کو سامنے رکھتے ہوئے وسیع البنیاد نیشنل کریکولم کونسل بنائی جائے۔ جس میں محب وطن ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ایجوکیشنل پروفیشنلز ،علماءکرام، تنظیمات مدارس دینیہ اور دانشور شامل ہوں۔ نیشنل کریکولم پالیسی ورک کو ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ سے منظور کرایاجائے ہر قسم کے بیرونی امتحانات پر پابندی لگادی جائے۔ ہرسطح پر واحد قومی امتحان اوریکساں سرٹیفکیشن کا نظام لایا جائے اُردو کو ذریعہ تعلیم بنایاجائے ابتدائی تعلیم اردو کے ساتھ مادری زبانوں میں دی جائے۔دینی مدارس کے شہادة العالمیہ پاس نوجوانوں کو ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی عام یونیورسٹیوں سے کرنے کی اجازت ہو نیز سول سروس کے تمام درجوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں دینی مدارس سے فارع ہونے والے طلبا کوشامل ہونے کی اجازت دی جائے ،عربی زبان کو نصاب کا باقاعدہ حصہ بنایاجائے کیونکہ یہ آئین کا تقاضا بھی ہے۔نصاب کو ایمانیات، عبادات، سیرت طیبہ ، مشاہیراسلام ، اسلامی تہذیب اور عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے اورپرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مو¿ثر نگرانی کے لیے اتھارٹی قائم کی جائے ۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں گذشتہ سات عشروں سے طبقاتی نظام تعلیم رائج ہے۔اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، کارخانے داروں، سیاست دانوں، اعلیٰ سول و فوجی افسروں، لینڈ، ڈرگ ،شوگراور دیگر مافیازکے بچے غیر ملکی تعلیمی اداروں سے منسلک انگلش میڈیم اداروں میں پڑھتے ہیں جبکہ عام پاکستانی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیںجن کا معیار کسی بھی لحاظ سے معیاری اور مثالی نہیں ہے۔ درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید پوش لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں جن کا معیار سرکاری سکولوں سے بہتر ہے تاہم مقابلے کے امتحان میں اشرافیہ طبقے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے ۔کیونکہ ان لوگوں نے ہی اب تک اس ملک پر حکمرانی کی ہے اور آئندہ بھی وہ کسی عام پاکستانی کو اپنی صف میں داخل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے انگریزوں نے اپنی نوآبادیات کے لئے جو نظام تعلیم وضع کیا تھا پاکستان اور ہندوستان میں آج بھی وہی نظام قائم ہے۔ موجودہ حکومت نے پہلی بار دہرے نظام تعلیم کو ختم کرکے ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا اعلان کیا ہے جوعام پاکستانیوں کے لئے ایک خواب تھا کہ ملک کے صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے بچوں کے ساتھ کسان، مزدور، ریڑھی بان ، پرچون فروش ، موچی اور لوہار کے بچے بھی ایک ہی سکول میں ایک ہی نصاب پڑھیں گے۔
ملی یک جہتی کونسل نے مشترکہ اعلامیہ میں تاریخ اسلام، قرآن اور اسلامی تعلیمات کو بھی نصاب کا حصہ بنانے اور قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی جو تجویز دی ہے اسے قومی نصاب میں شامل کیا جاسکتا ہے تاکہ یکساں تعلیمی نصاب پڑھنے کے بعد سکول، کالج اور یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے بہترین پروفیشنلز بننے کے ساتھ باعمل، باکردار مسلمان اور سچے محب وطن پاکستانی بن سکیں۔معیاری تعلیم اور سو فیصد شرح خواندگی کے بغیر موجودہ دور میں کوئی بھی قوم ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اقوام عالم کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے ان کے طور و طریقوں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔قرآن کریم جب نازل ہوا تو اس کا پہلا حکم علم کا حصول تھا۔ تحصیل علم کو اسلام نے جتنی اہمیت دی ہے دنیا کا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔ دینی جماعتوں کو ”میں نہ مانوں“ کی پالیسی ترک کرکے حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہئے اور یکساں نصاب و نظام تعلیم کے ایجنڈے کو قومی و دینی اقدار سے ہم آہنگ کرکے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد کرنی چاہئے تاکہ قوموں کی برادری میں پاکستانیوں کو باشعور، تعلیم یافتہ ،کشادہ ذہن اور ترقی پسند قوم کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاسکے۔