کورونا وبا کے باعث تعلیمی اِدارے بند کرنے کا فیصلہ قدرے آسان لیکن تدریسی سرگرمیوں کی بحالی اور اِس سلسلے میں متعلقہ حلقوں کی توقعات پر پورا اُترنا قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کےلئے آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہر گزرتے دن متعلقہ حلقوں کی جانب سے مطالبات بڑھ رہے ہیں اور تازہ ترین مطالبہ اُن طلبہ کی تشویش پر مبنی ہے جنہیں اِس سال میڈیکل اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کےلئے مقابلے کے امتحانات کا سامنا کرنا ہے اور اِس سے قبل وہ چاہتے تھے کہ بارہویں جماعت کا امتحان دوبارہ دے کر اپنے نمبر بہتر بنائیں کیونکہ انٹری ٹیسٹ کے علاوہ دہم اور بارہویں درجات کے نمبروں کو مدنظر رکھ کر میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے دیئے جاتے ہیں اور یہ پورا عمل کم سے کم اِس حد تک تو شفاف ہے کہ طلبہ کے نمبروں کو شمار اور اُن کی بنیاد پر داخلے دینے کے عمل کا ہر مرحلہ مشتہر کیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر حکومت کو میڈیکل اور طب کی تعلیم کے سرکاری اداروں میں ہر سال نشستوں کی تعداد بڑھانی چاہئے لیکن اگرچہ ہر سال قریب پچاس ہزار سے زیادہ داخلے کے خواہشمند طلبہ محروم رہ جاتے ہیں‘ جن کےلئے نجی یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا اگر تعلیم کو صوبوں میں تقسیم اور ’قومی تعلیمی پالیسی‘ کی صورت ذمہ داری ایک دوسرے کے کندھوں پر نہ ڈالی جائے تو اِس سے زرمبادلہ اور قیمتی و ذہین نوجوانوں کی تعلیم میں دلچسپی سے زیادہ فائدہ اُٹھایاجا سکتا ہے انٹرمیڈیٹ کے طلبہ ’سوشل میڈیا‘ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مہم چلا رہے ہیں جس کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ جو طلبہ اپنے امتحانی نتائج کی بہتری کےلئے دوبارہ امتحان دینا چاہیں اُن کےلئے امتحانات کے خصوصی انتظامات ہونے چاہئیں تاکہ وہ اپنا ایک سال ضائع کئے بغیر دوبارہ امتحانات دے سکیں ماضی میں یہ عمل باآسانی ممکن ہوتا تھا جب سالانہ امتحان کے تین سے چھ ماہ کے اندر دوبارہ امتحان دینے کی سہولت دی جاتی تھی اور وہ طلبا و طالبات زیادہ محنت کر کے اپنے نتائج بہتر بنا لیتے تھے جنہیں محسوس ہوتا کہ اُن کے حاصل کردہ نمبر توقع سے کم ہیں ۔
فیصلہ سازوں کو یہ بات خاصی عجیب لگتی ہوگی لیکن جن طلبہ کی ساری توجہ پڑھائی میں مرکوز ہوتی ہے‘ اُنہیں زندگی کی دوسری چیز میں دلچسپی نہیں رہتی لیکن اگر انٹری ٹیسٹ کے بعد گریڈز میں بہتری کےلئے خصوصی امتحانات کا انعقاد کیا گیا تو اِس صورت میں ایک تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا اور طلبہ اِس صورتحال کی وجہ سے ’شدید ذہنی دباو¿‘ سے گزر رہے ہیںاِنٹری ٹیسٹوں کا اِنعقاد اِس مرتبہ تاخیر کے ساتھ ستمبر یا ماہ اکتوبر میں ہونگے جبکہ ماضی میں یہ امتحانات اگست سے ستمبر کے درمیان ہوتے تھے اور طلبہ اِنٹری ٹیسٹ کی تیاری کے ساتھ اِنٹرمیڈیٹ میں اپنے گریڈ بہتر بنانے کے موقع سے بھی فائدہ اُٹھاتے تھے اِس سلسلے میں امتحانی بورڈز کی جانب سے صوبائی حکومت کو تجویز ارسال کی گئی ہے جس میں خصوصی امتحانات کا انعقاد ستمبر اکتوبر میں منعقد کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ جو طلبہ اپنے گریڈز کی بہتری کرنا چاہیں اُنہیں آسانی رہے اور اُن کا قیمتی تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ جائے اِس سلسلے میں صوبائی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن مسئلہ امتحان کے وقت کا ہے حالانکہ اِمتحانات کا انعقاد اُن سبھی احتیاطی تدابیر کےساتھ ممکن ہے جو کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو¿ سے بچنے کےلئے تجویز کی گئی ہیں جبکہ یہ طلبہ امتحانات کی بھاری فیسوں بھی ادا کرتے ہیں جو اِنکے اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں والدین کی پریشانی نجی تعلیمی اداروں کی من چاہی فیسیں ہی نہیں بلکہ حکومت کے امتحانی اداروں (ایجوکیشن بورڈز) کی امتحانی و دیگر مراحل کے اخراجات بھی ہیں‘ جن پر نظرثانی ہونی چاہئے کہ حکومتی ادارے کمائی کا ذریعہ نہیں ہوتے کہ عوام کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اُٹھائیں حسب اعلان خواندگی کے بلند اہداف حاصل کرنے کےلئے تعلیم کے عمل کو ہر دن کم خرچ اور معیاری بنانے کےلئے امتحانی بورڈز کو ہسپتالوں کی طرح مالی و انتظامی طورپر خودمختار کرنا ہوگا کہ یہ اپنے بہت سے فیصلے خود کر سکیں اپنے تعلیمی مستقبل کےلئے پریشان طلبہ کے اطمینان بارے سوچتے ہوئے فیصلہ سازی کے عمل میں ہونے والی غیرمنطقی تاخیر کا سدباب اور دانستہ و غیردانستہ سرزد ہونے والی غلطیوں کا ادراک و ازالہ ہو سکے۔