اکیس جولائی: دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے ’جی سکس‘ سے چند مسلح افراد نے صحافی (مطیع اللہ جان) کو اغوا کیا اور وہ بارہ گھنٹے بعد بخیریت اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔ اغوا کار نہیں جانتے تھے کہ اُن کی حرکت اور آمدورفت کم سے کم دو ’سی سی ٹی وی کیمروں‘ میں محفوظ ہو رہی ہے اور ابھی اغوا کو چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ اِس پورے واقعے پر سوشل میڈیا میں ویڈیو اور تصاویر کے ساتھ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بارے تبصرے‘ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص خفیہ اداروں پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اِس قدر شور برپا ہوا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس (اطہر من اللہ) نے اِس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ’دن دہاڑے اغوا ہونے والے صحافی کو اگلی صبح عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا جبکہ حکومت (وزارت داخلہ)‘ پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے الگ الگ وضاحتیں جاری ہوئیں کہ اُن کا مذکورہ اغوا سے کوئی تعلق نہیں۔ بائیس جولائی: اِسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کے اغوا سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ”جو کچھ بھی ہوا‘ اس کے لئے پوری ریاست ذمہ دار ہے۔“ مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی نے اپنے بھائی کی بازیابی اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی کو بازیاب کرانے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ اگر مطیع اللہ کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا تو حکام ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔
ایک موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انتہائی سخت ریمارکس دیئے کہ ”دن دیہاڑے جس طرح صحافی کو اٹھایا گیا (تو) کیا سب ادارے تباہ ہو چکے ہیں؟“ انہوں نے اسلام آباد پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ”کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پولیس کی وردی میں آ کر بندہ اٹھا لے؟“ اُنہوں نے اِس ضرورت پر بھی زور دیا کہ پولیس مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہونے دے۔صحافی مطیع اللہ جان پندرہ جولائی سے خبروں میں ہیں جنہیں پندرہ جولائی کو سپریم کورٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اعلی عدلیہ کے خلاف ’توہین آمیز‘ الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں وضاحت کے لئے طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس گلزار نے معاملے کا ’از خود نوٹس‘ لیتے ہوئے تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جو اِس بات کا جائزہ لے گا کہ سوشل میڈیا پر اظہار خیال سے توہین عدالت کا پہلو نکلتا ہے یا نہیں۔ مذکورہ پیغام جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدارتی ریفرنس کیس کے پس منظر میں لکھا گیا تھا جس میں اعلی عدلیہ کے سات ججز کے ’کردار‘ پر یہ کہتے ہوئے بھی سوال اُٹھایا گیا کہ ”اعلیٰ عدلیہ کی ججز کی برداشت کو بھی اعلیٰ ہونا چاہئے اور ایک ایسے وقت میں جب ملک میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے پہلے ہی گھٹن کا ماحول ہے تو کہیں نہ کہیں سے بات تو کی جاتی ہے جو شاید چند افراد کو ناپسندیدہ بھی لگے۔
“ درحقیقت اِس پورا قضیے کے تین پہلو ہیں۔ پہلی بات یہ کہ صحافی نے جو الفاظ استعمال کئے وہ پہلی بار نہیں کئے گئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر جملے اور ہر پیغام کے الفاظ سے ہتک اور توہین کے ایک نہیں بلکہ کئی ایک پہلو نکالے جا سکتے ہیں اُور تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو اظہار رائے پر پابندی عائد ہے اور نہ ہی گھٹن کا ماحول ہے اور اگر ایسا ہوتا تو خواندہ و ناخواندہ صارفین کو سوشل میڈیا وسائل کے یوں آزادی سے اِستعمال کرنے کی اجازت نہ ہوتی اَصل خرابی سوشل میڈیا سے نہیں بلکہ ’غیردانستہ‘ اُور ’غیرمحتاط‘ اَلفاظ کے اِستعمال کی وجہ سے ہے قومی مسائل پر اِظہار خیال اور امن و امان کے حوالے سے بروقت آواز اٹھائی جا رہی ہے لیکن اگر شائستہ اور محتاط الفاظ کا استعمال کیا جائے تو بدمزگی سے بچا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے صحافی اغوا اور بازیابی پر اطمینان کا اظہار معنی خیز ہے ‘یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے پیغام (ٹویٹ) میں لکھا کہ ’مطیع اللہ کو آزاد دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس طرح کے اقدامات ہمارے آئین اور ان عالمی انسانی حقوق کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں جن پر پاکستان نے دستخط کئے ہوئے ہیں۔ شہری مسلسل خوف کی فضا میں نہیں رہ سکتے اور کسی بھی جمہوری معاشرے میں قانون تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔