ایک عرصہ سے سیف سٹی منصوبہ کے حوالہ سے باتیں سن رہے ہیں مگر تاحال اس حوالہ سے ٹھوس پیشرفت نہیں ہوسکی ہے اوریوں پشاور اپنے ہی باشندوں کیلئے مسلسل غیر محفوظ ہوتا چلاجارہاہے اس شہر پر وہ وقت بھی آیاکہ حیات آباد جیسے علاقہ سے بھی مغویوں کو بازیاب کرایاگیا افغان جنگ سے قبل پشاور امن وامان کے لحاظ سے قابل رشک شہر تھا تاہم پھر اسلحہ اورافغان مہاجرین کی آمد سے صور تحال تیزی سے تبدیل ہونے لگی پھرنائن الیون کے بعد تو حالات اس قدرخراب ہوگئے کہ جب بشیراحمد بلور پر نمکمنڈی میں ناکام خودکش حملہ ہوا اورخودکش حملہ آور بھاگ کر ایک گھر میں گھس گیا تو اس کے بعد سے لوگ خود کو گھروں میں بھی غیر محفوظ تصور کرنے لگے پھر سیف سٹی کے نام سے ایک منصوبے کااعلان کیا گیا مگر معاملہ فائلوں میں ہی دبارہا ا ب اس سلسلہ میں کچھ پیشرفت ہوچلی ہے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت مجوزہ پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کے حوالہ سے پیشرفت کا جائزہ لینے کے لئے اعلیٰ سطح اجلاس وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا اجلاس کو پراجیکٹ پر اب تک کی پیشرفت ، ٹائم لائنز اور آئندہ کے لائحہ عمل ، تجاویز اور دیگر متعلقہ امور پر بریفنگ دی گئی اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کی تعمیر کے لئے 11 کنال اراضی مختص کردی گئی ہے 31 پولیس سٹیشنوں کا سروے مکمل کیا گیا ہے جس کے تحت 3500 سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے لئے 940 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے منصوبے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی پی ڈی ڈبلیو پی سے منظوری کے بعد سی ڈی ڈبلیو پی اور ایکنک کوپیش کیا جائے گا اجلاس کو لاہور ، اسلام آباد اور پشاور سیف سٹی منصوبوں کی لاگت کا موازنہ بھی پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کا تخمینہ لاگت 19 ارب روپے ہے وزیر اعلیٰ محمودخان نے منصوبے کی پیش رفت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ مقررہ ٹائم لائنز کے مطابق تمام متعلقہ فورمز سے من©صوبے کے پی سی ون کی منظوری کویقینی بنایا جائے ‘۔
وزیر اعلیٰ نے پشاور کے سیکورٹی مسائل کے کل وقتی حل کے لئے اس مجوزہ منصوبے کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کہ اس منصوبے کو عملی طور پر شروع کرنے سے پہلے لاہور ، اسلام آباد سیفٹی پراجیکٹس کا بغور مطالعہ کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ابتداءمیں ان پراجیکٹس میں جو غلطیاں ہوئی تھیں وہ اس پراجیکٹ میں نہ دہرائی جائیں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ منصوبے پر عمل درآمد میں غیر ضروری تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ پشاور سیف سٹی منصوبے کا بنیادی مقصد شہریوں کے دفاع اور شہر کی خوبصورتی ہے تاہم اس اہم منصوبہ کی پیشرفت میں بھی تاخیر سے کام لیا جارہا ہے جس پر وزیر اعلیٰ نے خفگی کا اظہار کیا ہے شہر کے مستقبل کی ضروریات کے تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھ کر منصوبے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے حوالہ سے بھی وزیر اعلیٰ نے سخت تاکید کی انہوں نے واضح کیا کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ ، امن وامان کی صورت حال کی بہتر ی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے ، پشاور سیف سٹی کا منصوبہ ایک جامع اور عوام دوست منصوبہ ہے ، پشاور شہر پر بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ ہے آبادی کی بڑھوتری سے شہر پشاور میں شہری سہولیات کی فراہمی میں دشواریاں ہیں اور باہر سے نکل مکانی کرنے والوں ، بالخصوص افغان مہاجرین کی موجودگی سے شہریوں کا تحفظ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ایسے میں پشاور سیف سٹی منصوبہ پشاور کے باسیوں کے لئے ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں تاہم ایسے اہم منصوبوں میں بھی ہمارے متعلقہ اداروں کی نااہلی اور تاخیری حربوں نے شہریوں کو مایوس کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ محمود خان نے شہریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پشاور کے عظمت رفتہ کو لوٹانے کا تہیہ کررکھا ہے ایسے منصوبوں میں وزیر اعلیٰ خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں جو عوامی مفاد کے حق میں ہوں اسی لئے وزیر اعلیٰ نے واشگاف الفاظ میں متعلقہ اداروں کے حکام کو کہا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد میں غیر ضروری تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ مناسب یہ ہوگا کہ اس اہم منصوبے کی بروقت تکمیل کوممکن بنانے کے لئے وزیر اعلیٰ ایماندار اور عوام دوست افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں اور اس کمیٹی کو ہفتہ وار رپورٹ پیش کرنے کا پابند کریں‘ اس سے اس منصوبے کے جملہ مقاصد کی تکمیل ممکن ہو سکے گی بصورت دیگر عوامی اہمیت کاحامل منصوبہ اسی طرح تاخیر کاشکار ہوتا چلا جائے گا جس سے پشاوریوں کی مایوسی اور احساس عدم تحفظ میں بھی اضافہ ہوگا ۔