ترقیافتہ اورپسماندہ سوچ کافرق

 عالمی وباءکوروناکی وجہ سے پوری دنیا کا سماجی، معاشی،انتظامی اور معاشرتی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔رواں سال کے اوائل سے ہی دنیا کے تمام ملکوں میں کاروباری مراکز، دفاتر، عبادت گاہیں، تفریحی مقامات، ہوٹل،تجارتی اور تعلیمی ادارے بند ہیںبچوں کا قیمتی تعلیمی وقت بچانے کے لئے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری ہے جو اگرچہ کلاس روم کا متبادل نہیں تاہم کتاب سے بچوں کا رابطہ برقرار رکھنے کا یہ ایک مناسب انتظام ہے ہمارے ملک کی طرح دنیا کے مختلف ملکوں میں کورونا کیسز میں بتدریج کمی کے بعد تعلیمی ادارے کھولنے کے لئے حکومت پر دباﺅ بڑھ رہا ہے۔ا مریکی ریاست ایریزونا میں سکول کھولنے کے خلاف اساتذہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔بینر اور پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر مارچ کرنے والے اساتذہ نعرے لگارہے تھے کہ ”آن لائن کلاسز لینے سے ہماری جان کو کوئی خطرہ نہیں لیکن کورونا ہمیں ضرور مارے گا“ ایک استانی کے پلے کارڈمیں درج تھا کہ ” میں اپنے شاگردوں کے جنازوں میں کسی قیمت پر جانا نہیں چاہتی، حکومت ہمارے بچوں کی زندگی داﺅ پر نہ لگائے“دوسری جانب ہمارے ہاں پرائیویٹ سکولوں کے مالکان اور اساتذہ کی طرف سے تعلیمی ادارے کھولنے کے لئے حکومت پر مسلسل دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔یہی ترقیافتہ اور پسماندہ قوم کی سوچ کا فرق ہے۔ہمارے سکول مالکان اور اساتذہ کو یہ فکر نہیں کہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہورہا ہے انہیں بس یہی فکر دامن گیر ہے کہ فیسیں جمع نہ ہونے سے مالکان کا نقصان ہورہا ہے اور اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔

دینی مدارس نے ایس او پیز پر عمل درآمد کی تحریری یقین دہانی کے بعد امتحانات بھی لے لئے اور پڑھائی بھی شروع کردی ہے ہر سکول میں دو سو سے لے کر تین چار ہزار تک بچے پڑھتے ہیں انہیں فیس ماسک پہننے اور سینی ٹائزر لگانے کے ساتھ چھ فٹ کا سماجی فاصلہ رکھنے کا پابند بنانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ دو چار بچے کورونا وائرس لے کر سکول پہنچ گئے تو اس سکول کے سینکڑوں ہزاروں بچوں کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی وزرائے تعلیم کے ساتھ مشاورت کے بعد کورونا کی شرح میں واضح کمی کی صورت میں پندرہ ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔تاہم وفاقی وزیرتعلیم نے واضح کیا ہے کہ کورونا کیسز میں کمی نہ آنے کی صورت میں فیصلے پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔سکول مالکان کا کہنا ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے اور صبح سات بجے سے شام چار بجے تک تین شفٹیں رکھیں گے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک شفٹ پڑھانے والے اساتذہ کو اسی تنخواہ پر تین شفٹیں پڑھانے پر مجبور کیا جائے گا ، ہر شفٹ کے لئے انہیں اضافی تنخواہ دی جائے گی یا اضافی شفٹوں کے لئے نئے اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے۔جو سکول مالکان بچوں سے پوری فیس لینے کے باوجود اپنے اساتذہ کو چھٹیوں کی تنخواہیں نہیں دیتے ان سے اساتذہ کو اوور ٹائم دینے یا اضافی سٹاف رکھنے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔کورونا کی وجہ سے صرف سکول مالکان اور پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ اور دیگر سٹاف کی آمدن کے ذرائع ہی بند نہیں ہوئے۔

معاشرے کا ہر طبقہ کورونا اور لاک ڈاون سے متاثر ہوا ہے 13 مارچ سے15ستمبر تک سکول بند رہنے کے باوجود بچوں سے چھ ماہ کی چھٹیوں کی پوری فیس اور سالانہ ترقیاتی فنڈ کی مد میں اضافی تین سے پانچ ہزار روپے فی بچہ وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے۔عدالت عظمیٰ نے واضح فیصلہ دیا تھا کہ پانچ ہزار ماہانہ تک فیس وصول کرنے والے ادارے فیسوں میں دس فیصد اور پانچ ہزار سے زائد فیس وصول کرنے والے بیس فیصد رعایت دینے کے پابند ہوں گے عدالتی فیصلے میں عمومی چھٹیوں کے دوران ٹرانسپورٹ فیس اور ترقیاتی فنڈ سمیت مختلف مدات میں اضافی رقم بٹورنے سے بھی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔مگر کچھ نجی تعلیمی ادارے بچوں سے نہ صرف چھ مہینے کی پوری فیسیں وصول کر رہے ہیں بلکہ سکول کی عمارت کے کرائے، مرمت، رنگ و روغن کے نام پر سالانہ ترقیاتی فنڈ کے نام سے اضافی رقم بھی وصول کی جارہی ہے اور پوری رقم جمع نہ کرانے والے بچوں کو سکول سے خارج کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں والدین حیران اور پریشان ہیں کہ عدالتیں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کروا رہیں، حکومت کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی والے ہاتھی کے کان میں کیوں سوئے ہوئے ہیں۔اپنا پیٹ کاٹ کر ، اپنی خواہشوں اور ضرورتوں کا گلا گھونٹ کر بچوں کو معیاری تعلیم دلانے والے والدین کی حالت پر کچھ تو ترس کھائیںکوئی تو ہو جو بے چارے والدین کی فریاد سنے اور ان کی داد رسی کرے۔