وفاقی کابینہ نے بجلی کے بلوں میں وصول کی جانے والی ٹی وی فیس 35روپے سے بڑھاکر 100روپے مقرر کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد موخر کردیاہے ، کابینہ ارکان کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی 14ارب سے زائد کے خسارے میں ہے پہلے اس کا حساب لیا جائے گا،پی ٹی وی کی میڈیا ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد لائسنس فیس سے متعلق فیصلہ ہوگاکابینہ کے بعض وزراءکی رائے تھی کہ پی ٹی وی فیس میں اضافے سے متعلق فیصلہ کرنے سے قبل عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا ایک ادارے کے خسارے کا بوجھ عوام پر ڈالنے سے حکومت کی سبکی ہوگی وزراءکا کہنا تھا کہ سرکاری میڈیا میں حکومت کا امیج مزید موثر انداز میں پیش کیاجانا چاہئے حکومت نے گزشتہ دو سالوں کے دوران قومی اہمیت کے اہم فیصلے کئے ہیں مگر میڈیا ٹیم کی کمزوری کے باعث ان کی مناسب تشہیر نہیں ہوسکی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے معاونین اور مشیروں کی دوہری شہریت پر بھی بحث کی گئی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ ہر کام میں شفافیت چاہتے ہیں جو کارکردگی دکھائے گا کابینہ میں رہے گا اس لئے انہوں نے معاونین خصوصی اور مشیروں کی شہریت اور اثاثوں سے متعلق معاملات کو پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب ہر کوئی اپنی پوزیشن واضح کرسکتا ہے مگر وہ کسی طور پر کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال برداشت نہیں کرینگے ہمیں عوام کے اعتماد پرپورا اترنا ہے بصورت دیگر پی ٹی آئی کا انجام بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہوگا۔کابینہ میں حکومت کی کمزوریوں پر بحث کرنا ایک اچھی جمہوری روایت ہے۔
وزیراعظم نے کئی مواقع پر سیاسی مفادات کی آڑ میں چھپ کر غیر جمہوری فیصلے کرنے سے احتراز کیا ہے انہوں نے اپنے فعال اور قابل اعتماد ساتھیوں کو اہم عہدوں سے ہٹایا مگر اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔تاہم یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ حکومت کو بار بار یوٹرن لینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ عوامی معاملات سے متعلق فیصلے کرنے سے پہلے مشاورت اور اس کے مثبت اور منفی پہلوﺅں پر غور کیوں نہیں کیا جاتا۔پہلے فیصلے کئے جاتے ہیں جب عوام، اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے فیصلوں پر اعتراضات سامنے آتے ہیں تو فیصلوں کو ریورس کیا جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمت 118روپے فی لیٹر سے کم کرکے 85روپے کردی گئی۔ابھی اس فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پٹرول کی قیمت پھر بڑھا کر 100روپے لیٹر کردی گئی۔ وزراءمیڈیا کے سامنے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کے باوجود پاکستان میں تیل کے نرخ جنوبی ایشیاءمیں سب سے کم ہیں۔یہ غیر منطقی موازنہ غلط فیصلوں کا جواز نہیں بن سکتا۔ کابینہ نے ہی پی ٹی وی کی فیس 35روپے سے بڑھا کر100روپے کرنے کی منظوری دی تھی۔یہ بات طے تھی کہ فیصلے سے بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔ عوامی اعتراضات کے بعد جب حکمرانوں کو احساس ہوگیا کہ فیصلہ نامناسب ہے تو اس پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا۔ٹیلی وژن استعمال کرنے والے صارفین کا دو فیصد بھی پی ٹی وی کی نشریات نہیں دیکھتا۔ کیونکہ مقابلے کے اس دور میںمیڈیا ٹیم کی غیر حقیقی پالیسیوں کی وجہ سے سرکاری ٹی وی اپنی افادیت اور اہمیت کھو چکا ہے۔
ایک منافع بخش ادارہ اب چودہ ارب کے خسارے میں ہے ایک ادارے کی نااہلی کا مالی بوجھ عوام پر ڈالنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ پاکستان کے عوام کاپہلے ہی کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوںجینا دوبھر ہوچکا ہے گزشتہ دو سالوں میں غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گزارنے والوں کی شرح 38فیصد سے بڑھ کر 50فیصد ہوگئی ہے۔ اس عرصے میں بجلی، گیس، آٹے، چینی اور روزمرہ ضرورت کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اب عوام مزید مالی بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان روز ٹھوکر پہ ٹھوکریں کھا رہے ہیںان کو کانٹوں کی سیج پر بیٹھنے کا اچھا خاصا تجربہ ہوچکا ہے اب انہیں بلاسوچے سمجھے نادان وزیروں، مشیروں اور معاونیں کے مشوروں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنے کے بجائے معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر خود فیصلے کرنے ہوں گے کہ اس ملک، یہاں کے غریب عوام اور خود ان کے سیاسی مستقبل کے لئے کیافائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔عجلت میں فیصلے کرنے اور پھر وہ فیصلے منسوخ کرنے سے حکومت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے ۔اور ساکھ کو بحال کرتے کرتے کہیں بہت دیرنہ ہوجائے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ اصولوں پر سودے بازی نہیں کریں گے لیکن فیصلوں کو بار بار ریورس کرنا بھی تو اصولوں پر سودے بازی کے زمرے میں آتاہے۔