لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں کمی سے متعلق حکومتی اِعلانات اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تمام تر وعدوں‘ دعوو¿ں اور قانونی چارہ جوئی جیسی زبانی کلامی دھمکیوں کا خاطرخواہ اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ ادویہ ساز اداروں نے قیمتیں کم کرنے کی بجائے ادویات کی فراہمی روک دی ہے جس سے پیدا ہونے والی مصنوعی قلت سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے اور ادویات کی غیرقانونی فروخت (بلیک مارکیٹنگ) کا دھندا عروج پر ہے! توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں سے متعلق ایک قانون ’ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018ئ‘ میں ادویہ ساز اور ادویہ درآمد کرنے والے اداروں کو اِس بات کی اجازت کا ذکر ملتا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ہر سال اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ 10فیصد اضافہ کر سکتے ہیں۔ یہ اضافہ سال میں صرف ایک مرتبہ کیا جائے گا اور اِس سے متعلق حکومت سے تحریری اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ مذکورہ قانون منظور ہونے کے بعد جب ذرائع ابلاغ اور صارفین کا دباو¿ بڑھا تو حکومت نے مذکورہ ’ڈرگ پرائسنگ پالیسی2018ئ‘ پر نظرثانی کرتے ہوئے اِس ایک شق میں تبدیلی کر دی گئی لیکن ادویہ ساز ادارے ’ڈرگ ایکٹ 1976ئ‘ کی کئی دیگر شقوں کو بنیاد بنا کر قیمتوں میں اضافے کو نہ صرف اپنا حق و استحقاق سمجھتے ہیں بلکہ وہ سال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
ادویات اُور طبی آلات و ضروریات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ معمول بن چکا ہے اور ایک ایسی صورتحال جس میں آٹے چینی گھی اور خوردنی تیل جیسی روزمرہ استعمال کی بنیادی اشیاءکی قیمتیں ضبط میں نہ ہوں وہاں کے حکمرانوں سے ادویات کی قیمتوں بارے شکایت کرنے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے کیونکہ مسئلہ اُس عمومی منافع خوری کاہے جس نے ہر شعبے کا احاطہ کر رکھا ہے۔حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتیں اور اِن کی دستیابی پر نظر رکھنے والے نگراں ادارے ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)“ نے حال ہی میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے استحقاق کو ’ڈریپ‘ اجازت سے مشروط کر دیا ہے تاکہ ادویہ ساز اور ادویات درآمد کرنے والے من مانیاں نہ کر سکیں لیکن کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی حالات کی وجہ سے ادویہ ساز و درآمد کنندگان کو ستمبر 2020ءتک کی چھوٹ دیدی گئی تھی اور اِس کا مقصد اُن ادویات کی وافر مقدار میں دستیابی یقینی بنائے رکھنا تھا جو بالخصوص کورونا وبا کے علاج معالجے میں تجرباتی طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ حکومت اور ادویہ ساز اداروں کے درمیان مذاکراتی عمل اور خط و کتابت کا خلاصہ یہ بھی رہا کہ ستمبر 2020ءتک ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا لیکن ادویات قیمتوں میں اضافہ ایک معمول کے مطابق جاری رہا۔
قومی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار کے مواقع ادویہ ساز ادارے فراہم کر رہے ہیں‘ جنہیں مبینہ
درپیش مالی مشکلات کے باعث کاروباری سرگرمیاں سالانہ پانچ فیصد سے زیادہ سکڑ رہی ہیں اور اگر قیمتوں پر باضابطہ نظرثانی یعنی اضافے کی اجازت نہیں دی جاتی تو صنعتوں کے ایک ترجمان کے مطابق اِس سے ادویہ سازی کی صنعت مزید سکڑ جائے گی کیونکہ اگر ادارے منافع نہیں کمائیں گے تو وہ سرمایہ کاری بھی نہیں کریں گے اور جب سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو روزگار کے مواقعوں میں اضافہ بھی نہیں ہوگا جبکہ مارکیٹ کی ضرورت یہ ہے کہ ہر سال آنے والی نت نئی ادویات کی تیاری کے لئے ادویہ ساز صنعت میں سرمایہ کاری مسلسل ہوتی رہے۔ ادویہ ساز صنعتوں کا بنیادی نکتہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہے جو گزشتہ ایک برس کے عرصے میں ساڑھے تین فیصد کم ہوئی ہے اور وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں بڑے پیمانے پر ادویہ سازی کے شعبے کا موازنہ اگر ایک ماہ قبل سے کیا جائے تو یہ قریب 8 فیصد (7.78%) سکڑ گیا ہے۔
فیصلہ سازوں کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور بالخصوص ’فینسی ڈرگز‘ کی صورت صارفین کو لوٹنے کے عمل میں ادویات تجویز کرنے والے معالجین بھی برابر کے حصہ دار ہیں‘ جن کی ملی بھگت سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے ادویات کی قیمتیں نہیں بلکہ اُن کی عدم دستیابی پریشان کن ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ’پیپلز فارمیسی‘ کے تصور پر فروخت کے مراکز قائم کرکے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے اور یوٹیلٹی سٹورز کے نیٹ ورک میں تجرباتی طور پر چند سٹوررز میں میڈیکل کے شعبے متعارف کروائے جا سکتے ہیں‘ یوٹیلٹی سٹورز کے اِس مختلف استعمال کی بدولت حکومت کے لئے آسان و ممکن ہو جائے گا کہ وہ کم آمدنی و غریب طبقات کو اشیائے خوردونوش کی طرح ادویات بھی کم داموں پر فراہم کرے۔ صرف ادویات کی قیمتیں ہی نہیں بلکہ ادویات کی فروخت پر منافع کی شرح اور اِس کی مارکیٹنگ کا نظام بھی اصلاح طلب ہے۔