امریکہ: ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انتہائی خودپسندی یعنی ’’نرگسیت‘‘ (نارسسزم) کے شکار افراد دیگر لوگوں کے مقابلےمیں اپنی غلطی نہیں مانتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی ہی نہیں ہوئی ہے۔
اس کے مقابلے میں دیگر مزاج والے خواتین و حضرات سے اگر خطا ہوتی ہے تووہ اس کو نہ دوہرانے کے بارے میں سوچتے ضرور ہیں جبکہ نرگسیت والے لوگوں میں یہ رحجان کم ہی پایا جاتا ہے۔ اس بات کا دلچسپ انکشاف اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرینِ نفسیات نے ایک سروے کے بعد کیا ہے۔
اوریگن یونیورسٹی سے وابستہ سائنسداں سیٹورس ہوویز اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ ہمارے دماغ میں ماضی کے نتائج کا تجزیہ اور ان کاموں کو ذہنی طور پر مختلف انداز میں انجام دینے یا پرکھنے کا ایک قدرتی نظام پایا جاتا ہے جسے ’ حقائق کو روکنے کی ضروری فکر‘ یا شڈ کاؤنٹر فیکچول تھنکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں ہم گزرجانے والے واقعے کو اپنے دماغ میں سوچتے ہوئے اس کے مختلف نتائج یا پس منظر پر غور کرتے ہیں۔
ہوویز کے مطابق ہم خود حفاظتی سوچ کے کسی نہ کسی درجے پر ہوتے ہیں۔ ہم اپنی کامیابی کو اپنی محنت قرار دیتے ہیں، لیکن ناکامیوں کا الزام دوسروں یا بیرونی عوامل پر دھرتے ہیں، جبکہ دوسرے کی غلطیوں پر بے رحم ہوکردوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔
خود پرست افراد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کا مشورہ قبول نہیں کرتے اور ان کی رائے کا احترام بھی نہیں کرتے۔ اگر آپ ایسے لوگوں سے کہیں کہ آپ نے ایسا کونسا مختلف کام کیا ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ کچھ نہیں لیکن یہ سب کچھ اچھا کیا ہے۔
نفسیات کی رو سے نرگسیت ایک ایسی کیفیت ہے جس میں کوئی مرد یا عورت خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے، ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک ہونا چاہئےاور انہیں عزت ملنی چاہئے۔
یہ تحقیق جرنل آف مینجمنٹ میں شائع ہوئی ہے، جس میں چار مختلف گروہوں کے چار مختلف تجربات سے گزارا گیا۔ ان میں طلبہ و طالبات، ملازمین، تاجر اور مینیجر وغیرہ شامل تھے۔ ایک تحقیق چلی اور دوسری اسپین میں کی گئی ہے۔
اس دلچسپ تجربے میں انہوں نے شرکا کو جملوں کے جوڑے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا گیا۔ یعنی
میں سمجھتی یا سمجھتا ہوں کہ میں ایک خاص شخصیت ہوں،
بمقابلہ
میں دوسروں کے مقابلے میں نہ ہی بدتر ہوں، اور نہ ہی بہتر ہوں۔
اسی طرح شرکا کو دیگر بہت سے تجربات سے گزارا گیا جس میں انہیں دوسروں کے مقابلے میں خود کو زیادہ اہل ثابت کرنا تھا۔ تحقیقی سروے سے معلوم ہوا کہ خود پسند شرکا نے کسی بھی مقام پر خود پر تنقید نہیں کی اور بار بار اصرار کیا کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک ہی کیا ہے۔