گردشی قرض

 پاکستان کے اِقتصادی مسائل اور اُن کی وجوہات بارے ’آن لائن نشست (ویبی نار)‘ کے شرکا ءنے جس ایک نکتے پر سب سے زیادہ اظہار خیال کیا وہ توانائی (بجلی‘ گیس‘ قدرتی گیس اور پٹرولیم) کے شعبے سے متعلق ’قومی حکمت عملی‘ میں پائی جانے والی خرابیاں ہیں اور ماہرین کے بقول اِن خرابیوں کے اصلاح کی مبینہ کوششوں کے خاطرخواہ نتائج نہ نکلنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر سیاسی و غیرسیاسی دور حکومت میں متعلقہ شعبوں کے فیصلہ سازوں کے ذاتی‘ خاندانی یا کاروباری مفادات اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری سے لیکر سیاسی جماعتوں کی مالی سرپرستی کرنے والے ادارے گردشی قرضے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ باالفاظ دیگر پاکستان میں ایک ایسا طرز حکومت اور طرز حکمرانی رائج ہے کہ جس میں سیاست کاروبار اور کاروبار سیاست پر انحصار کرتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ گندم‘ آٹے‘ چینی‘ مختلف ذرائع سے بجلی کی پیداوار اور پٹرولیم کی درآمد اور فروخت کے کاروبار سے وابستہ خاندانوں کا تعلق کسی نہ کسی قدآور سیاسی شخصیت سے جا ملتا ہے ‘اِس کاروباری بندوبست کی وجہ سے نہ تو قوانین پر خاطرخواہ سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے اور نہ ہی ایسی قوانین میں موجود سقم دور کئے جاتے ہیں یا ایسی حسب حال و ضرورت قانون سازی کی جاتی ہے جس کی بدولت نہ ختم ہونے والے قومی خسارے کا سلسلہ رک جائے۔نومبر 2019ئ‘ وزیراعظم کے مشیر برائے مالی امور‘ خزانہ و آمدنی ڈاکٹر حفیظ شیخ نے دعویٰ کیا تھا کہ دسمبر 2020ءتک پاکستان کا گردشی قرض ختم کردیا جائے گا۔

 اِس دعوے کے دو پہلو تھے‘پہلی بات یہ کہ اِس سے قبل پاکستان کی کسی بھی حکومت نے گردشی قرض بالکل ختم کرنے کا یوں دعویٰ نہیں کیا تھا اور دوسرا گردشی قرض کے بارے میں سوالات یا موضوعات کو عموماً ضمنی باتوں اور ماضی کے حکمرانوں کی کارکردگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حکومت وقت یہ نہیں سوچتی کہ وہ خود بھی ہر دن ماضی کا حصہ بن رہی ہے۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا گردشی قرض 1.9کھرب روپے کے مساوی ہو چکا ہے اور یہ ایک ایسا اقتصادی بوجھ ہے‘ جو پاکستان کی پوری معیشت اور اقتصادیات کو ڈبونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ اِس میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گردشی قرض ایک تکنیکی اصطلاح ہے‘ جس کے معانی اور وضاحت اگر سمجھ لئے جائیں تو اِس کے محرکات و اسباب بھی سمجھ میں آتے چلے جائیں گے کہ گردشی قرض کس طرح پیدا ہوتا ہے اور اِس میں اضافے کی رفتار کیسے کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ عمومی طور پر قرض ایک ایسی مالیاتی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں کوئی شخص یا ادارہ دوسرے سے رقم یا خدمات ایک خاص مدت کا تعین کرکے حاصل کرتا ہے لیکن اگر قرض لینے والا خود بھی قرض دے چکا ہو تو حاصل کردہ قرض اور پہلے سے دیا گیا قرض ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں جبکہ گردشی قرض یہ ہوتا ہے کہ اِس کا حجم بنا ادائیگی بھی بڑھتا رہتا ہے اور یہ رکتا نہیں کیونکہ اِس میں ضامن حکومت ہوتی ہے‘ جس کی اجازت سے قرض دیا جاتا ہے اور اِسے گردشی اِس لئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ادارے اور دوسرے ادارے کے درمیان جنس یا خدمات کی صورت زیرگردش رہتا ہے‘ گردشی قرض کو اِس تمثیل سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ پہلا فریق دوسرے فریق سے کوئی جنس یا خدمات ادھار لیتا ہے‘ دوسرے فریق سے کسی تیسرے فریق نے قرض لیا ہوتا ہے اور تیسرے فریق سے پہلے فریق نے قرض لیا ہوتا ہے یا اُس کے قرض کی ذمہ داری اُس کے ذمے ہوتی ہے۔ اِس طرح پہلے فریق سے شروع ہونے والا قرض دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کومنتقل ہوتا ہے جبکہ تیسرا فریق اِسے پہلے فریق کی جانب موڑ دیتا ہے۔

پاکستان میں اگرچہ صرف بجلی کا پیداواری شعبہ گردشی قرض کے لئے ذمہ دار نہیں لیکن گردشی قرض میں قومی سطح پر بجلی کی خریدوفروخت کا عمل اِس کا بنیادی محرک ہے‘1: بجلی کے گھریلو اور صنعتی صارفین کی ایک تعداد ایسی ہے جو اپنے ذمے ماہانہ واجب الادا بل بروقت یا کبھی بھی ادا نہیں کرتے‘ 2: بجلی بنانے والے ادارے بجلی کی تقسیم کے قومی ادارے (ڈسٹری بیوشن کمپنیوں) کو بجلی فراہم کر کے بجلی کے ہر یونٹ کی قیمت حکومت کے ذمے لکھ دیتے ہیں‘ اگرچہ اُس کی فروخت سے حکومت کو قیمت وصول ہو یا نہ ہو لیکن حکومت کے ذمے بجلی کی پیداواری کمپنیوں کا قرض بڑھتا رہتا ہے‘3: بجلی کے پیداواری ادارے مختلف حکومتی اداروں سے ایندھن خرید رہے ہوتے ہیں اور جب اُنہیں حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت وصول نہیں ہوتی تو وہ ایندھن فراہم کرنے والے قومی اداروں کی ادائیگیاں روک لیتے ہیں‘ چونکہ حکومت عوام کے دباو¿ سے بچنے کے لئے بجلی کی پیداوار کو مسلسل جاری رکھتی ہے اِس لئے ایک ادارے کا دوسرے اور دوسرے کا تیسرے پر قرض بڑھتا رہتا ہے انہی تین شعبوں (بجلی کے ترسیلی نظام‘ چوری اور فروخت کے عوض وصولی نہ ہونے) کی وجہ سے گردشی قرض پیدا ہو کر بڑھتا رہتا ہے۔پاکستان میں قومی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہو رہی ہے‘سال 2018ءمیں بجلی کی زیادہ سے زیادہ مجموعی قومی پیداوار 31 ہزار 986 میگاواٹ تھی جبکہ اُس وقت زیادہ سے زیادہ قومی ضرورت 21 ہزار 425 میگاواٹ سالانہ تھی‘پاکستان میں قومی ضرورت سے زیادہ بجلی کی پیداوار کے باوجود تعطل (لوڈشیڈنگ) کا سبب ترسیلی نظام کی خرابیاں ہیں جبکہ تقسیم کار ادارے چاہے بجلی فروخت کریں یا نہ کریں لیکن اُنہیں اُس بجلی کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جو نجی یا سرکاری اداروں کی جانب سے اُنہیں فراہم کی جاتی ہے اور یہی گردشی قرض پیدا ہونے کی وجہ ہے۔ وقت ہے کہ گردشی قرض سے نجات کے اعلانات اور دعوو¿ں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔