قومی احتساب بیورو نے سپریم کورٹ میں اپنے تحریری جواب میں موقف اختیار کیا ہے کہ نیب قانون کی شق 16کے تحت بدعنوانی کے مقدمات کا 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں ہے اور ایسے کرپشن کے مقدمات میں پچاس، پچاس گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کیلئے ناکافی ہیں مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے ‘ہر احتساب عدالت اوسطاً50 مقدمات سن رہی ہے اگر 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججزدستیاب نہیں ہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہو سکتے ہیں ۔ احتساب عدالتوں کیخلاف اپیلیں سننے کیلئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں، ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلیٰ عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہیں،ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے،عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے جبکہ عدالتوں کی جانب سے “سیاسی شخصیات” کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتاہے۔
رضاکارانہ رقم واپسی (پلی بارگین)کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے لیکن اگر رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے‘ اسلامی نظریاتی کونسل بھی پلی بارگین کے طریقہ کار کو غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔ قومی احتساب بیورو آج کل زیرعتاب ہے اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی نیب کو ختم کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔حکومت نے نیب قوانین میں ترامیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے جسے قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کروانا حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بدقسمتی سے حکومت سے باہر کی تمام جماعتیں نہیں چاہتیں کہ کرپشن کے راستے بند ہوں وہ قومی احتساب بیورو کے خاتمے کا مطالبہ بھی اسی بنیاد پر کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف احتساب عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات زیرسماعت ہیں اور سینکڑوں دیگر کیسز کی نیب تحقیقات کر رہا ہے۔چیئرمین نیب خود اعلیٰ عدالت کے ریٹائرڈ جج ہیں اور ملک سے کرپشن جیسی لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے سلسلے میں ان کی نیت اور عزم پر شک نہیں کیا جاسکتامگر ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جب تک نیب قوانین میں اصلاحات نہیں کی جاتیں،کرپٹ عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں کا یہ موقف قابل غور ہے کہ نیب صرف سیاست دانوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے‘ سیاست دانوں کا کرپشن میں دوسرا تیسرا نمبر ہے۔یہ بات طے ہے کہ جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔مالی بدعنوانیوں کے ثبوت حاصل کرنے کا نیب کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی کرپشن کے کیسز کے فیصلوں میں تاخیر کی بڑی وجہ ہے۔ قوانین میں اصلاحات کے ذریعے کرپشن میں ملوث عناصر کو یہ ثابت کرنے کا ذمہ دار ٹھہراناچاہئے کہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے انہوں نے کیسے بنائے کیا یہ اثاثے جائز اور قانونی طریقے سے بنائے گئے یا کمیشن، کک بیکس، مالی بے قاعدگیوں، منی لانڈرنگ اور دیگر ناجائز ذرائع سے یہ دولت حاصل کی گئی ‘جو شخص جائز طریقے سے اور قانونی طور پراثاثے بنانے کا ثبوت پیش نہیں کرسکا اسے سزا دی جائے اس طرح کرپشن کیسز کے فیصلے سالوں کے بجائے چند مہینوں میں ہوسکتے ہیں۔کرپشن ایک وائٹ کالر کرائم ہے جس کا ثبوت حاصل کرنا آسان نہیں۔عدالتیں ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلے دیتی ہیں۔ثبوت اور شواہد پیش کرنے کی ذمہ داری مدعا علیہ پر ڈال دی جائے تو مقدمات کا فوری فیصلہ ممکن ہے انصاف کے نظام میں موجود سقم بھی کرپشن کے خاتمے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے انصاف کے نظام میں اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں پر لاکھوں دیوانی، فوجداری اور سیاسی مقدمات کا پہلے سے ہی کافی بوجھ ہے۔ مالی بدعنوانیوں کے مقدمات کا اضافی بوجھ ان پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہے تو قومی احتساب بیورو اور احتساب عدالتوں کا زیادہ خود مختار اور آزاد بنانا ہوگا۔