ریلوے کی حالت زار

 ایک وقت تھاکہ پاکستان میں ریلوے صحیح معنوں میں عوامی سواری ہوا کرتی تھی بلکہ بعض حکومتی زعماءبھی صرف ریلوے کے ذریعہ ہی سفر کرناپسند کرتے تھے یہ پاکستان میںریلوے کے عروج کادورتھاکہ جب ریل کی سیٹی سن کرلوگ اپنی گھڑیوں میں اوقات درست کیاکرتے تھے ایوب خان کے دو رمیں ریلوے نے مسلسل ترقی کی مگر اس کے بعد سے بتدریج صورت حال خراب ہوتی چلی گئی اور جب جمہوریت مزید مضبو ط ہوئی تو ہم نے ریل کی پٹڑیاں حتیٰ کہ انجن تک بیچ کر سریئے میں تبدیل کردیئے اوریہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہوا انگریز جتنی لائنیں چھوڑ کرگئے تھے ہم ان میں اضافہ کیاکرتے الٹا کمی کربیٹھے ‘جنرل پرویز مشرف اور ان کے بعد آنے والوں کے دور میں بھی ریلوے کی حالت خراب تر ہوتی گئی جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو شیخ رشید کو ریلوے کی وزار ت حوالہ کی گئی جو اس سے پہلے بھی ریلوے کے وزیررہ چکے ہیں امید تھی کہ وہ صورتحال میں بہتری کے لئے ہنگامی بنیاد وں پر اقدامات کاآغاز کریں گے مگر بدقسمتی سے ان کی توجہ ریلوے سے کہیں زیادہ ملکی سیاست اوراپوزیشن پر مرکوزرہی اور یوں بہتری کی امیدیں دم توڑتی چلی گئیں اب کورونا نے جہاں دیگر منافع بخش اداروں کو مالی بحران کاشکار بنادیا ہے آمدنی میں کمی نے ریلوے انتظامیہ کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے ، محکمہ ریلوے کو مالی سال 2019-20ءمیں مجموعی طور پر 74 ارب 72 کروڑ روپے کا مالی خسارہ رہا بتایا جاتاہے کہ مالی سال 2019-20 ءمیں ریلوے کی کل آمدنی 47 ارب 21 کروڑ 26 لاکھ جبکہ اخراجات 94 ارب 93 کروڑ 75 لاکھ سے تجاوز کرگئے ریلوے کی اوسط ماہانہ آمدنی تین ارب 93 کروڑ جبکہ ماہانہ اخراجات 7 ارب 91 کروڑ 14 لاکھ روپے رہے یوں ماہانہ بنیاد وں پرریلوے کو 3 ارب 97 کروڑ ستر لاکھ روپے کا خسارہ ہوا ریلوے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 28 ارب 12 کروڑ 41 لاکھ روپے ادا کئے گئے ملازمین کی پینشن پر 34 ارب 66 کروڑ 75 لاکھ روپے اخراجات آئے فیول پر 17 ارب 70 کروڑ 61 لاکھ روپے اخراجات ہوئے ۔

یوٹیلٹی بلز پر 2 ارب 69 کروڑ 57 لاکھ روپے اخراجات آئے ریپئرنگ اینڈ مینٹننس پر 7 ارب 58 کروڑ دس لاکھ اخراجات ہوئے کورونا وائرس کے باعث 56 دن تک ٹرین آپریشن مکمل طور پر بند رہا۔پاکستان میں صرف ریلوے محکمہ ہی خسارے سے دوچار نہیں بلکہ پی آئی اے ، کراچی سٹیل ملز اور اس قسم کے دیگر کئی اہم قومی ادارے بد ترین خسارے سے دوچار ہیں بڑے قومی ادارے کبھی انتہائی منافع بخش ہوتے تھے اور ملک کی ترقی میں ان کا کلیدی کردار ہوتا تھا تاہم بعد میں حکمرانوں نے سیاسی بنیادوں پر اپنے ورکروں کو بلا ضرورت بھرتی کرکے ان منافع بخش اداروں کو بد ترین مالی خسارے سے دوچار کردیا سیاسی بنیادوں پر بلا ضرورت ان اضافی بھرتیوں نے ملک دشمن اور معیشت دشمن کلچر کی بنیاد رکھی جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ایسے ہی اداروں میں ایک محکمہ ریلوے بھی ہے جس کا خسارہ اربوں تک جا پہنچا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ریلوے میں بے تحاشہ بھرتیوں کا نوٹس لیا ہے وفاقی وزیرریلوے کی محکمہ ریلوے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ یا محکمہ بنانے کی کاوشیں بھی رنگ نہ لاسکیں اس خسارے کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لئے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے وہ تاحال سامنے نہیں آسکی ہیں بلکہ اس کے برعکس ریلوے میں مزید بھرتیوں کی نوید سنائی دے رہی ہے جب تک حکومت اس سلسلہ میں سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جرات مندانہ اقدامات نہیں کرتی۔

 تب تک ریلوے کا خسارہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا چلا جائیگا ۔ ممکن ہے ریلوے کی آمدنی اور اخراجات کے اعداد وشمار میں کچھ فرق ہو ،تا ہم یہ ایک ناقابل تردید تلخ حقیقت ہے کہ ریلوے محکمہ بد ترین خسارے سے دوچار ہے ریلوے کو منافع بخش محکمہ بنانے کے لئے زبانی کلامی دعوﺅں کی بجائے انتہائی جرات مندانہ اور قابل عمل اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ریلوے پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا اور عوام اور تاجر کو سفری سہولیات بھی میسر ہوں گی ۔ مال گاڑیاں چلانے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے اس سے ریلوے کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ساتھ ہی ریلوے کی قیمتی زمینوں کو قبضہ مافیا سے بھی چھڑانے کی اشد ضرورت ہے خود پشاور میں صور ت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں یاتو قیمتی زمینیں قبضہ گروپ کے پاس ہیں یا پھر اونے پونے داموں چہیتوں کو لیز پر دی گئی ہیں اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے صدر سٹیشن سے چند فرلانگ یعنی ریلوے کے مقامی ہیڈ آفس سے چند منٹ کی دور ی پرواقع نوتھیہ پھاٹک سے گلبر گ پھاٹک تک ریلوے کی زمینوں پر جو باز ار قائم ہیں کیاوہ ذمہ داروں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں یا پھر کیا واقعی ان کو حصہ مل رہاہے ‘یہی طرز عمل ریلوے کی برباد ی کاباعث بن رہاہے اور اب اس سے اجتناب ضروری ہوچکاہے ۔