پاکستان میں جہاں قوانین کی قطعی کوئی کمی نہیں لیکن اِن پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے قوانین اور قواعد کی موجودگی ’بے معنی‘ دکھائی دیتی ہے وہیں عالمی معاہدوں کی توثیق کے بعد اُنہیں پورا نہ کرنے میں بھی پاکستان اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے سیاسی (منتخب) اور غیرسیاسی (غیرمنتخب) فیصلہ سازوں کو جب عالمی کانفرنسوں میں شرکت کے دعوت نامے موصول ہوتے ہیں تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہیں۔ وہ اکثر اِن عالمی اجلاسوں میں شرکت کے موقع پر ایسے وعدے کر آتے ہیں‘ جنہیں پورا کرنا حکومت اور انتظامیہ کی دلچسپی کا مرکز نہیں ہوتا۔ دنیا شعور اور بیداری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ نسلی و لسانی امتیازات ختم کرنے کے لئے نصاب تعلیم سے لیکر سماجی انصاف اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کے حقوق بارے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے جس کے بعد عالمی سطح پر حکومتوں کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے توقع کی جاتی ہے کہ مالی و تکنیکی تعاون کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کے سیاسی و غیرسیاسی حکمراں (فیصلہ ساز) اِن ’نظرانداز طبقات‘ کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں گے۔ عالمی سطح پر ”بچوں سے مشقت نہ لینے“ کا عہد کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل ہے ‘غربت و افلاس کے ماحول میں اگر حکومت کی جانب سے معاشرے کے کمزور ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لئے غیرروایتی تعلیم‘ ہنرمندی اور مالی امداد کی حکمت عملی اختیار کی جائے تو ممکن ہے کہ بچوں کے ذہنی‘ جسمانی اور جنسی استحصال کو روکا جا سکے‘ اِس ضرورت سے کسی کو انکار نہیں کہ ابتدائی عمر ہی سے ہنرمندی سکھائی جائے لیکن اِس عمل میں بچوں کی ذہنی و جسمانی ضروریات اور حالتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو ہنرمندی کے نام پر جس مشقت اور ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اُن کی جسمانی طاقت اور سمجھ بوجھ سے کہیں گنا زیادہ یا اُن کی صحت کے لئے خطرناک ہوتا ہے جیسا کہ موٹرگاڑیوں کی مرمت گاہیں (آٹو ورکشاپوں) میں کام کرنے والے بچوں سے گاڑیوں کے انجن آئل اور دیگر پٹرولیم محلول تبدیل کرنے جیسے کام لئے جاتے ہیں لیکن اُنہیں خاطرخواہ حفاظتی اشیاءجیسا کہ دستانے یا آنکھیں اور منہ ڈھانپ کر رکھنے کے لئے عینک اور ماسک نہیں دیئے جاتے اور نہ ہی اِس عملی تربیت کے مراحل میں کوئی نگران اُن کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ایک عالمی ادارے کے لئے صوبائی دارالحکومت پشاور سے متعلق جائزہ رپورٹ کی ذمہ داری (اسائمنٹ) ملنے پر چغل پورہ‘ پہاڑی پورہ اور شعبہ بازار پشاور کی آٹو ورکشاپس میں قریب پچاس گھنٹے گزارنے کا موقع ملا جہاں درجنوں کی تعداد میں کم عمر بچے صبح (چھ سے شام چھ بجے تک) گاڑیوں کی مرمت (ڈینٹنگ پینٹنگ)‘ صفائی (واشنگ)‘ تیل (موبل آئل) تبدیلی جیسے کام کر رہے تھے اور اِن میں سے کسی ایک نے بھی حفاظتی اشیاء(دستانے عینک یا ماسک) نہیں پہن رکھے تھے۔ اُن کے ناخنوں میں موبل آئل کے ذرات ذخیرہ تھے کہ اُنہیں شاید اب عام طریقے دھونے پر علیحدہ بھی نہ کیا جا سکے۔
وہ ننھے ہاتھ جن میں کتاب اور قلم ہونا چاہئے تھا‘ وہ کندھا جس پر سکول بیگ لٹکنا چاہئے تھا لیکن اُس سے سیاہی اور تاریکی چھلک رہی تھی۔ پسینے سے شرابور بدن‘ کانپتے ہاتھ اور آنکھوں میں سوال نہ ہونا عجیب قسم کا منظر تھا ۔ وہ کسی مشین کی طرح بس اپنے کام میں مگن آس پاس کی دنیا سے بے خبر رہتے کیونکہ جانتے تھے کہ اگر اُن کی توجہ اپنے کام سے بھٹکی تو اُستاد (جسے عموماً ’اُستاذ‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے) نہ صرف اُن کی زبانی کلامی عزت اَفزائی کرے گا بلکہ اُن کی تواضع جسمانی طور پر مارپیٹ کی صورت بھی کی جائے گی۔ مشقت کرنے والے بچوں کی ذات اور شخصیت کہیں دب کر رہ گئی تھی‘ جسے تلاش کرنے کی ذمہ داری صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کی ہے‘ بچوں کو ہنر کے ساتھ اپنی عزت نفس اور دوسروں کے ساتھ جس انداز میں بول چال کرنے کی تعلیم مل رہی ہے وہ قطعی تعمیری نہیں۔ سوچئے کہ ایک طبقہ اپنے بچوں کو بول چال‘ اُٹھنے بیٹھنے اور معمولات زندگی کے آداب سکھانے پر سرمایہ اور توانائیاں خرچ کر رہا ہے لیکن آس پاس بڑی تعداد میں ایسے بچوں کی صورت نسلیں پل بڑھ رہی ہیں‘ جن کے لئے حسن معاشرت کی کوئی خاص اہمیت نہیں‘تاہم اِس سلسلے میں قومی سطح پر جائزہ لینے اور سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔