کورونا وبا کی وجہ سے جہاں عمومی معاشی سرگرمیاں متاثر ہیں وہیں ایک ایسا کاروبار بھی ہے جس نے وبا کے جاری دورانئے میں غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ پشاور کے ’تابوت ساز‘ کبھی بھی اِس قدر مصروف نہیں دیکھے گئے کہ جو کام پہلے آٹھ سے دس گھنٹے روزانہ ہوا کرتا تھا اب تین شفٹوں میں چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کے مختلف ہسپتالوں اور تجارتی مراکز کی جانب سے تابوت کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جسے پورا کرنے کے لئے دن رات کام جاری ہے۔ اندرون یکہ توت گیٹ‘ منڈا بیری چوک‘ جہاں سے ایک راستہ چوک ناصر خان اور دوسرا پیپل منڈی کی سمت مڑ جاتا ہے گزشتہ چالیس برس سے تابوت اور کفن دفن کی ضروریات فروخت کرنے کا مرکز ہے اور موجودہ غیرمعمولی حالات میں بھی یہاں دکانیں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔منڈا بیری میں تیار ہونے والے تابوت سستے داموں‘ عام دستیاب‘ فارمیکا نامی مادے (مٹیریل) سے تیار کئے جاتے ہیں‘ جو لکڑی کے مقابلے وزن اور قیمت میں نسبتاً کم ہوتا ہے۔ فارمیکا کی یہ عمومی قسم گنے سے حاصل ہونے والے خام مال (پھوگ) سے بنائی جاتی ہے جسے خاص درجہ¿ حرارت اور کیمیائی مادوں سے سخت تختے کی شکل دیدی جاتی ہے اور اِس کی بعد خوبصورتی اور پانی یا نمی سے بچانے کے لئے اوپری اور نچلی سطح پر مختلف رنگوں کی چادریں لگا دی جاتی ہیں۔ فارمیکا کا استعمال ارزاں فرنیچر ساز صنعت میں بھی کیا جاتا ہے لیکن تابوت سازی کے لئے لکڑی کے مقابلے فارمیکا کا استعمال فروغ پا گیا ہے۔ منڈا بیری میں تیار ہونے والے تابوت صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا اور دور دراز قبائلی اضلاع اور افغانستان بھی بھیجے جاتے ہیں اور اِس صنعت کی اہمیت و طلب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ کسی صنعتی بستی کے فرنیچر ساز تابوت سازی پر توجہ دیں کیونکہ اندرون پشاور کی تابوت ساز مارکیٹ میں نصف درجن کے قریب تابوت ساز اور ایک درجن سے زائد تابوت فروخت کرنے والی دکانیں منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں‘ جو ہمارے ہاں کا ایک عمومی رویہ ہے کہ جب بھی کسی چیز کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس کے بنانے والے اور اِسے فروخت کرنے والے مصنوعی قلت پیدا کر کے بھاری دام وصول کرتے ہیں۔
کورونا وبا کی صورت میں یہ معاملہ چہرہ ڈھانپنے والے ماسک اور ادویات کی مہنگے داموں فروخت کی صورت دیکھا گیا‘ جو قابل مذمت ہے کہ ہمارے ہاں جس بات کو ’کامیاب کاروباری حکمت عملی‘ کہا جاتا ہے درحقیقت وہ عوام کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگرچہ تابوت کی تیاری میں 90فیصد استعمال ہونے والی مادے (فارمیکا) اور سستی لکڑی سے بنی پٹیاں عام دستیاب ہیں لیکن کورونا وبا کی وجہ اِن کی قلت کا جواز بنا کر قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کسی تابوت کی کوئی قیمت مقرر نہیں۔ وبا کی صورت مشکل کی اِس گھڑی میں تابوت آسائش و نمائش نہیں رہی بلکہ ضرورت بن چکی ہے اُور اِس ضرورت بصورت مجبوری سے تابوت ساز بخوبی آگاہ ہیں۔ اندازہ ہے کہ منڈا بیری پشاور میں ہر ہفتے قریب 100 تابوت تیار ہوتے ہیں اور یہ تابوت ہسپتالوں سے ملنے والے پیشگی آرڈرز پر فراہم کر دیئے جاتے ہیں۔ کورونا وبا سے قبل اہل پشاور اور خیبرپختونخوا کے بیشتر حصوں میں کسی مرحوم یا مرحومہ کی تابوت میں رکھ کر تدفین معمول نہیں ہوتا تھا بلکہ اکثر بنا تابوت تدفین ہوتی تھی لیکن کورونا وبا کے بعد سے بیشتر مرحومین کی تدفین کے لئے تابوت کا استعمال ہونے لگا ہے جو کہ ناگزیر ضرورت ہے لیکن اِس سے قبل تابوت ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی استعمال ہوتا تھا۔
ماضی میں کسی انتہائی بیمار یا کسی دور دراز علاقے سے میت کی منتقلی کےلئے تابوت کا استعمال کیا جاتا تھا اور اِس بات کو زیادہ بہتر سمجھا جاتا تھا کہ قبر میں کھجور کی شاخوں اور کھڈی سے بنی ہوئی چٹائیاں و دریاں بچھا کر مردے کو لٹا دیا جاتا تھا لیکن اب تابوت ضرورت اور بنا ضرورت دونوں صورتوں میں استعمال ہونے لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس کی مانگ اور اِس کاروبار سے جڑے ہنرمندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن کچھ بھی منظم نہیں۔تابوت کی قیمت ڈھائی سے تین ہزار جبکہ کفن دفن کی ضروریات و لوازمات پر پندرہ سو سے دو ہزار روپے خرچ آتا ہے یوں مجموعی طور پر کسی تدفین کی صرف اِن دو ضروریات کے لئے چار سے پانچ ہزار روپے درکار ہوتے ہیں۔ اگر تابوت سازی کو باقاعدہ صنعت کی صورت میں ترقی دی جائے تو اِس کی تیاری میں استعمال ہونے والے متبادل مادوں (مٹیریلز) سے نہ صرف تیاری کے اخراجات میں بچت ممکن ہے جس سے تابوت کی قیمت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ منڈا بیری میں تابوت سازی کا کاروبار کرنے والے دکاندار حسب طلب تابوت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن طلب بہرحال زیادہ ہے کیونکہ کورونا وبا کی وجہ سے احتیاطی و حفاظتی تدبیر کے پیش نظر تابوت استعمال ہو رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے وضع کردہ قواعدوضوابط (ایس او پیز) کے مطابق بھی مرحومین کے کفن دفن کے لئے تابوت کا استعمال لازمی قرار دیدیا گیا ہے۔
ہسپتالوں میں کسی بھی مرض سے فوت ہونے والوں کی میت ’تابوت‘ میں رکھ کر ہی لواحقین کے حوالے کی جاتی ہے جبکہ کورونا وبا سے متاثرہ مریض کی صورت جسد خاکی تابوت میں رکھنے کے باوجود بھی لواحقین کے حوالے نہیں کیا جاتا البتہ اثرورسوخ رکھنے والے ضلعی انتظامیہ سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کر کے تدفین کے مراحل بنا تابوت کھولے خود اَدا کر سکتے ہیں اور میت کی قبر میں منتقلی اور سپرد خاک کرنے میں حصہ لے سکتے ہیں۔ مشکل معاشی صورتحال میں تابوت اور کفن دفن کے اخراجات ایک عام آدمی کے لئے پریشان کن ہیں‘ جن میں کمی لانے کے لئے فرنیچر ساز صنعت اگر تابوت سازی جیسے بظاہر معمولی کام کو بھی توجہ دے تو اِس سے طلب و رسد کے درمیان فرق اور فی تابوت قیمت میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔