خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے سیاحتی مقام کمراٹ میں بین الاقوامی معیار کا کیبل کار منصوبہ شروع کرنے کااعلان کیا ہے‘ 14کلومیٹر طویل یہ کیبل کار منصوبہ کمراٹ اپر دیرسے لوئر چترال کے خوبصورت سیاحتی مقام مد اک لشت تک تعمیر کیا جائیگا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور دنیا کا سب سے لمبا اور اونچا کیبل کارمنصوبہ ہوگا جس کی تکمیل سے علاقے میں سالانہ 80لاکھ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی آمد متوقع ہے جس کے نتیجے میں علاقے کے لاکھوں لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئےں گی اور صوبائی حکومت کے آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔کمراٹ مداک لشٹ چیئرلفٹ کی تنصیب کا فیصلہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت محکمہ سیاحت کے ایک اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں منصوبے کی تفصیلی فیزیبلٹی سٹڈی اور ڈیزائن پر کام شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔ منصوبے پر 32 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایاگیا ہے کمراٹ اور مداک لشٹ میں کیبل کارسٹیشنوں میں کار پارکنگ، ریسٹورنٹس اور انٹرنیٹ کے علاوہ دیگر سہولیات بھی دستیاب ہوںگی منصوبے کی فیزیبلٹی سٹڈی چھ مہینوں میں مکمل کی جائے گی جس کے بعد اس منصوبے پر عملی کام 2021 میںشروع کیاجائے گا۔کمراٹ مداک لشٹ چیئرلفٹ منصوبہ صوبے میں سیاحت کے فروغ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ جو سیاحت کو ترقی دے کر خود کفالت کی منزل تک رسائی کے حکومتی عزم کا اظہار ہے۔ قدرت نے خیبر پختونخوا کو دلکش نظاروں سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔
اس خطے میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا ہر سامان موجود ہے۔ یہاں فلک بوس، برف پوش پہاڑ بھی ہیں، گھنے جنگلات اور انواع و اقسام کی جنگلی حیات بھی موجود ہے یہاں ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے اور آبشار بھی ہیں،گنگناتے جھرنے بھی ہیں۔گلیات، وادی ناران، کاغان، ملم جبہ، کالام، بحرین، مرغزار، کمراٹ، مداک لشٹ، برموغ لشٹ، شندور، قاق لشٹ، بروغل اور وادی بمبوریت کے خوبصورت نظارے نظروں کو خیرہ کرتے ہیں۔ترقی کے تمام وسائل دستیاب ہونے کے باوجود ماضی میں ان سے استفادہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں کم از کم بیس مقامات ایسے ہیں جہاں چیئرلفٹ نصب کرنے سے لاکھوں سیاح اس خطے کا رخ کرسکتے ہیں یہاں دسمبر سے مارچ تک شدید برفباری ہوتی ہے اور سرمائی کھیلوں کے لئے سوات، دیر، گلیات، چترال اور کاغان کی وادیاں سوئزرلینڈ سے کسی طرح بھی کم نہیں صرف سیاحت کو ترقی دے کر خیبر پختونخوا حکومت اپنا بجٹ پورا کرسکتی ہے سیاحت کی ترقی سے اندازاً ایک کروڑ افراد کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں۔
مقامی دستکاریوں کو بھی فروغ حاصل ہوسکتا ہے ۔سیاحت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاحتی مقامات تک رسائی کے ذرائع کا فقدان ہے۔ دیر سے کمراٹ تک چار پانچ گھنٹے کا سفر نہایت تکلیف دہ اور پرخطر ہے سڑک کی حالت بہت خستہ ہے۔اسی طرح دروش سے مداک لشٹ تک بھی سڑک کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ترقی ہموار اور پختہ سڑک پر چل کر آتی ہے۔مواصلاتی نظام خستہ اور ناکارہ ہونے کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاح چاہتے ہوئے بھی سیاحتی مقامات تک جانے کا رسک نہیں لیتے۔ خیبر پختونخوا کے چٹیل پہاڑ اپنے اندر معدنیات کے بےش بہاخزانے چھپائے ہوئے ہیں مگر ان سے استفادہ کرنے کےلئے بھی ضروری ہے کہ سڑک تعمیر کرکے بھاری مشینری وہاں پہنچائی جائے۔ صرف چترال میں پچیس اقسام کی قیمتی معدنیات موجود ہیں مگر رسل و رسائل کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان خزانوں سے اب تک فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ۔صوبائی حکومت کو کمراٹ مداک لشٹ چیئرلفٹ منصوبے کے ساتھ ایون سے بمبوریت، چترال ٹاﺅن سے برموغ لشٹ، بونی سے قاق لشٹ اور شندور سے ہرچین تک کیبل کار بچھانے پر بھی غور کرنا چاہئے۔صوبے کے سیاحتی مقامات تک پختہ سڑکوں کی تعمیر پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سیاح آسانی سے صوبے کے ان خوبصورت مقامات تک رسائی حاصل کرسکیں۔اگر صوبائی حکومت نے اپنے باقی ماندہ تین سالوں میں سیاحت کے فروغ پر توجہ مرکوز رکھی تو 2025تک یہ صوبہ اپنے وسائل میں خود کفیل ہوسکتا ہے اور ملک کا سب سے متمول صوبہ بن سکتا ہے جس کا کریڈٹ بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعلیٰ محمود خان کو جائے گا۔