مسئلہ صرف یہ نہیں کہ پاکستان میں ایک سے زیادہ نصاب تعلیم رائج ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اِن کتب کے ذریعے دی جانے والی معلومات میں ”سنگین“ غلطیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ زیرشمار و زیرنظر مذکورہ غلطیوں کی وجوہات (دانستہ یا غیردانستہ) جو بھی ہوں لیکن نصاب تعلیم کی حد تک‘ اسلام‘ پاکستان اور تاریخ پاکستان کے بارے میں معلومات ایک جیسی ہونی چاہئیں۔ نصاب تعلیم مرتب کرنے اور نجی تعلیمی اداروں کی من پسند (من چاہی) نصابی کتب کے انتخاب کی اجازت دینے والے حکومتی ادارے ”پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ“ نے بیٹھے بٹھائے قریب 500 کتب کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تو حیران کن نتائج سامنے آئے جن کی روشنی میں 100 درسی کتب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تیئس جولائی کے اِس اقدام کی تمام تفصیلات جاری نہیں کی گئیں تاہم جو چند ایک وجوہات بیان کی گئیں ہیں اُن کے مطابق ”ایسی کتب کہ جن میں پاکستان کی بانی شخصیات اور پاکستان کے جغرافیے کے بارے میں معلومات حکومت کی نصابی کتب اور تاریخ شواہد کے مقابلے میں مختلف درج پائی گئیں تھیں جیسا کہ قائد اعظمؒ اُور علامہ اقبالؒ کی تاریخ پیدائش میں غلطیاں اور علامہ اقبالؒ کی اعلیٰ تعلیمی سند (ڈگری) انگریزی کی بجائے فلسفے میں ہونا‘ اُن کی تاریخ پیدائش نومبر کی بجائے 9 اکتوبر کا ہونا وغیرہ شامل ہیں ممنوع قرار دیدی گئی ہیں۔“ حالانکہ درس و تدریس کی آڑ میں حقائق کے منافی اور گمراہ کن کتب کی نشاندہی میں بہت دیر ہوئی ہے اور ”تعلیمی کتب کا احتساب“ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔
بہرحال دیر آئد درست آئد اور خاص بات یہ بھی ہے کہ جن 100 درسی کتابوںپر پابندی عائد کی گئی ہے اُن کے 31 ناشرین (پبلشرز) میں غیرملکی ادارے بھی شامل ہیں۔تشویشناک بات یہ ہے جن نصابی کتب پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ صرف پنجاب ہی میں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں کے نجی سکول بھی اِن مہنگی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ بھاری فیسیں دیکر والدین اپنے بچوں کو ایک ایسی تعلیم دلوا رہے ہیں جن میں حقائق و معلومات کی غلطیاں ہر صفحے پر پائی گئیں ہیں تو قصوروار کون ہے؟ پاکستان کے نقشے سے لیکر جغرافیائی محل وقوع اور ممالک کی تعداد بارے غلط اعدادوشمار اِس بات کی گواہی ہیں کہ مذکورہ اداروں نے نصابی کتب ترتیب دیتے وقت خاطرخواہ تحقیق سے کام نہیں لیا اور نہ ہی حساس موضوعات سے جڑی حساسیت کا کماحقہ احساس کیا ہے بلکہ حیران کن و پریشان کن امر یہ ہے کہ بہت سے حساس موضوعات سے جڑی اُن باریکیوں کو بھی دھیان میں نہیں رکھا گیا جو پاکستان کی داخلہ و خارجی پالیسی کے بنیادی نکات ہیں جیسا کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا مو¿قف اور پاکستان بشمول کشمیر کے نقشہ جات‘ جن میں کشمیر کو نہ تو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا اور نہ ہی اُسے متنازعہ علاقہ لکھا گیا۔ اصل ضرورت تو یہ تھی کہ نصابی کتب کا ”حرف بہ حرف مواد“ شائع ہونے سے قبل متعلقہ اِدارے کی نظروں سے گزرتا‘ جس کے بعد اُسے شائع ہونے کی اجازت ملتی اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ ملک کے کسی ٹیکسٹ بک بورڈ سے اجازت لیکر نجی ادارے نصابی کتب شائع کرتے ہیں۔
جنہیں ’آزمودہ کاروباری حکمت عملی‘ کے ذریعے نجی اداروں کے نصاب میں شامل کروا دیا جاتا ہے حالانکہ ایسی کوئی مجبوری یا ضرورت نہیں کہ جس کی وجہ سے سرکاری نصابی کتب پر نجی ناشرین کی شائع شدہ کتابوں کو ترجیح دی جائے نصابی کتب سے متعلق ہر صوبے کے قانون میں اِس بات کا بطور خاص ذکر کیا جاتا ہے کہ اُس کے ہاں شائع یا پڑھائی جانے والی ایسی کتب کی اشاعت و فروخت کی اجازت نہیں ہو گی جو اِمتحانات کے ذریعے طلبہ کی صلاحیتوں کو جانچنے کے عمل کے لئے نقصان دہ ہوں لیکن معروف وغیرمعروف اور فرضی ناشرین کے ناموں سے شائع ہوئی ایسی سینکڑوں کتابیں مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اِس پورے مسئلے کا سیدھا سادا اور آسان حل یہ ہے کہ سرکاری نصابی کتب کے اشاعتی معیار کو اِس حد تک بلند کیا جائے کہ نجی تعلیمی اداروں کو اُن سے استفادہ کرنے میں کوئی امر مانع نہ رہے۔
اِس سلسلے میں سرکاری نصابی کتب اچھے کاغذ اور اچھی اشاعت کے ساتھ بھی شائع کی جا سکتی ہیں‘ جن کی نجی اداروں کے لئے قیمت مقرر کرتے ہوئے اُنہیں سرکاری اداروں میں مفت فراہم کیا جا سکتا ہے اور یوں جملہ اخراجات نجی اداروں کو کتب کی فروخت سے وصول کئے جا سکتے ہیں۔ اگر پاکستانی ہر سال اربوں روپے کی آکسفورڈ اور کیمبرج پریس کی درسی کتابیں خریدنے کی سکت رکھتے ہیں تو وہ پاکستان کے اپنے ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع شدہ کتابیں کیوں نہیں خریدیں گے؟ اِس معاملے کو کاروبار کی نظر سے نہیں بلکہ قومی سوچ اور قومی ضرورت کے زاویئے سے دیکھا جانا چاہئے۔ یکساں نصاب تعلیم رائج کرنا ’تحریک انصاف‘ کے اِنتخابی منشور کا حصہ تھا اور اس خاص موقع جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے درس وتدریس کے عمل میں وقفہ ہے کا بھرپور فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ جب تک تعلیم اور نصاب تعلیم کی اصلاح نہیں ہو جاتی‘ ڈھکی چھپی غلطیوں کو درست نہیں کر لیا جاتا‘ اُس وقت تک قومی یک جہتی‘ قومی تشخص اور نسلی لسانی تعصبات سے متعلق فکروعمل کا خاتمہ نہیں کیا جا سکے گا۔