امریکی طبّی ماہرین نے پانچ ہزار سے زیادہ بالغ افراد کا مطالعہ کرنے کے بعد جوانی میں موٹاپے اور بڑھاپے میں ڈیمنشیا کے درمیان ’’مضبوط تعلق‘‘ دریافت کیا ہے، تاہم اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ جوانی میں موٹے یا زائد الوزن افراد بڑھاپے میں لازمی طور پر ڈیمنشیا کا شکار ہوں۔
واضح رہے کہ ڈیمنشیا ایک ایسی دماغی بیماری ہے جو عموماً بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ ڈیمنشیا کا شکار ہونے والے شخص کے دماغی خلیات آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے جس کی وجہ سے ابتدائی مرحلے میں وہ شخص دائیں بائیں اور کھڑکی دروازوں کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے اور اسے رفع حاجت جیسی بنیادی ضروریات کا احساس بھی نہیں رہتا۔
جیسے جیسے یہ بیماری بڑھتی ہے، ویسے ویسے متاثرہ فرد کی یادداشت بھی تقریباً ختم ہوجاتی ہے اور بالآخر وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اب تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہوسکا ہے جبکہ ڈیمنشیا کی موجودہ دوائیں بھی صرف اس کی پیش رفت کو آہستہ کرنے میں ہی مدد کرتی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک میں وبائیات (ایپی ڈیمیولوجی) کی اسسٹنٹ پروفیسر عدینہ ذکی الحضوری اور ان کے ساتھیوں نے 5104 بزرگوں کی میڈیکل ہسٹری کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ ’’بالغ‘‘ یعنی 21 سے 40 سال کی وہ خواتین جو عمر کے اس حصے میں زائد الوزن (اوور ویٹ) تھیں، ان میں 70 سال کی عمر کو پہنچنے پر ڈیمنشیا کا شکار ہونے کا امکان (عمر کے اسی حصے میں نارمل وزن رکھنے والی خواتین کے مقابلے میں) 180 فیصد زیادہ تھا، جبکہ دورانِ بلوغت موٹاپے میں مبتلا خواتین کےلیے بڑھاپے میں ڈیمنشیا ہونے کا خطرہ 250 فیصد تک زیادہ تھا۔
اسی طرح دورانِ بلوغت زائد الوزن مردوں کےلیے بڑھاپے میں ڈیمنشیا کا امکان 150 فیصد اور موٹے مردوں کےلیے 250 فیصد زیادہ دیکھا گیا۔ علاوہ ازیں، وہ مرد جو ادھیڑ عمری میں موٹاپے کا شکار تھے، ان کےلیے بڑھاپے میں ڈیمنشیا کا امکان 200 فیصد تک زیادہ تھا۔
اگرچہ اس مطالعے سے جوانی اور ادھیڑ عمری میں زائد الوزن ہونے اور بڑھاپے میں ڈیمنشیا کا باہمی تعلق بہت مضبوط انداز سے سامنے آیا ہے لیکن ابھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ 20 سے 40 سال کی عمر میں موٹاپے یا اوور ویٹ ہونے کی وجہ سے بڑھاپے میں بھی ڈیمنشیا ہوسکتا ہے۔
یہ تحقیق گزشتہ ہفتے ’’الزائمرز ایسوسی ایشن‘‘ کی ایک آن لائن کانفرنس میں پیش کی گئی۔