ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وقت بے وقت کھانا اور غذائی اوقات میں بے ترتیبی انسانی جسم کو ہمارے پچھلے اندازوں سے کہیں زیادہ متاثر کرسکتی ہے۔
جامعہ پنسلوانیا کے پیرلمن اسکول آف میڈیسن کے سائنسداں نئی تحقیق کے بعد کہہ رہے ہیں کہ جسم کے ہر خلئے کے اندر 24 گھنٹے کی ایک گھڑی ہوتی ہے جو دوسرے خلیات کے ساتھ شراکت کرتے ہوئے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شفٹوں میں کام کرنے والے افراد دوسروں کے مقابلے میں بہت جلد موٹاپے اور ذیابیطس وغیرہ کے شکار بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جسم کی اندرونی گھڑیاں ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں رہتیں۔ اس کی اہم وجہ کھانے کے اوقات میں شدید بے ترتیبی ہے۔
لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے اثرات مزید دوررس ہوسکتے ہیں کیونکہ وقت بے وقت کھانے سے جسم کی اندرونی حیاتیاتی گھڑی (بائیلوجیکل کلاک) شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کی تفصیلات بین الاقوامی تحقیقی جریدے سائنس میں شائع ہوئی ہے۔
ذیابیطس اور میٹابولزم کی ماہر ڈاکٹر مچیل لازر اور ان کے ساتھیوں کےمطابق ہمارے دماغ میں حیاتیاتی گھڑی ہوتی ہے جو بدن کے دیگر اعضا کی بافتوں (ٹشوز) کی اپنی قدرتی گھڑی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ڈاکٹر مچیل نے اپنی ٹیم کے ساتھ ملکر چوہے کا ایک ماڈل تیار کیا جس کے جگر کے مخصوص خلیات یعنی ہیپاٹوسائٹس کی گھڑی کو باربار متاثر کیا جاسکتا تھا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ جوں ہی ہیپاٹوسائٹس کی قدرتی ٹک ٹک خراب ہوئی خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ یعنی کولیسٹرول کی مقدار بڑھنا شروع ہوگئی جو امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور فالج وغیرہ کی وجہ بن سکتی ہے۔
اس چھوٹے سے ماڈل سے معلوم ہوا کہ اگر صرف ایک عضو کے خلیات کی قدرتی گھڑی متاثر ہوجاتی ہے تو اس سے کولیسٹرول کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جگر کے خلیات متاثر ہونے سے بدن کے دیگر اجسام کے خلیات کے اوقات بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ۔ اس طرح ایک عضو متاثر ہونے سے دیگر اہم اعضا بھی خراب ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت کا خیال نہ رکھنے سے جسم کے عضو بھی متاثر ہوتے ہیں۔