عیدالاضحی بخیروعافیت اور روایتی جوش و خروش سے منانے کے بعد اگلا مرحلہ شکر و احترام کے عملی اظہار یعنی اُن مسائل سے متعلق غور کرنے کا ہے‘ جن کا ایک مرتبہ پھر شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو حسب سابق سامنا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی قوم کے ہاں تہذیب اور سماجی اخلاقیات کی گہرائی اور وسعت جاننے کے لئے تہواروں کے موقع پر ’اجتماعی رویوں‘ کی پیمائش سے کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہاں تہوار منانے میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تین مراحل و مواقعوں قبل اَز تہوار‘ دورانِ تہوار اور بعداَز تہوار اجتماعی رویئے خوبیوں کا مجموعہ اور حسن معاشرت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جبکہ پاکستان کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ یہاں تہواروں کے موقع پر گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ ناجائز منافع خوری کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے اور تیز آواز میں موسیقی یا مذہبی مواد سے محظوظ ہونے کے علاوہ ہوائی فائرنگ جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے فخر محسوس کی جاتی ہے! اِحساس ذمہ داری سے احساس شکرگزاری تک حساسیت کا فقدان درجہ بہ درجہ عام ہے اور جب تک حساسیت کا یہ خسارہ پورا نہیں ہو جاتا‘ اُس وقت تک ہمارے مسائل جوں کے توں‘ بدستور برقرار رہیں گے۔ یہ اَمر بھی ذہن نشین رہے کہ ’گھر کے اَندر صفائی کی صورتحال‘ کو اگر ’گھر کے باہر صفائی کی صورتحال‘ سے یکساں و متصل نہیں سمجھا جاتا تو اُس وقت تبدیلی کا نزول و ظہور نہیں ہوگا۔ یہ نتیجہ¿ خیال بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ جب تک کسی معاشرے میں اِجتماعی رویئے بگاڑ کا شکار رہیں گے تو وہاں ”اخلاقی زوال“ کا عمل جاری و ساری رہے گا۔
جو جلد یا بدیر مکمل تباہی پر منتج ہوتا ہے۔عید الاضحی صرف تہوار ہی نہیں بلکہ ’اِجتماعی رویوں کا اِمتحان“ بھی تھا جب ایک ”عظیم قربانی“ کی یاد منائی گئی لیکن اکثریت نے اِخلاص و اِیثار کے اُن اسباق و تعلق پر غور نہیں کیا‘ تین دن کے تہوار میں ’سنت اِبراہیمی‘ تو اَدا کر دی گئی لیکن اب قربانی کے جانوروں کی گندگی اور آلائشوں سے تعفن اُٹھنے کا سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہے گا۔ عجیب مرحلہ¿ فکر ہے کہ اہل صدق جس خلوص اور جذبے سے قربانی کی صورت ”عہد ِوفا کی تجدید“ کرتے ہیں‘ اُسی جذبے سے قربان کئے گئے جانوروں کی باقیات کو ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم ذمہ داریوں کا خاطرخواہ احساس نہیں کرتے اور ہماری سمجھ بوجھ‘ ہمارے اقوال اور ہمارے افعال ایک دوسرے کی مخالف سمت میں سفر کر رہے ہیں؟ تعلیمات کی کمی نہیں۔ ہر ذریعے اور وسیلے سے علم حاصل کیا جا رہا ہے لیکن اصل مشکل تربیت کا فقدان ہے۔ عبادات سے دنیاوی معاملات تک‘ بودوباش سے لین دین اور خرید و فروخت سے اجتماعی مفادات کی پاسبانی تک‘ خدمت کا ہر وہ گوشہ نظرانداز ہے‘ جس کی تعلیم و تلقین ہر مذہب و مسلک کا خاصہ ہے۔ مردم آزر رویئے اور عمل اصلاح طلب ہیں۔عید الاضحی کے موقع پر ”اجتماعی ذمہ داری“ کا جس انداز میں مظاہرہ ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آیا اور حسب سابق کئی علاقوں میں نتیجہ یہ رہا کہ جانوروں کی باقیات‘ اُن کا بچا کچا چارہ یہاں وہاں گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے‘ جس سے گندگی و تعفن پھیلتا رہتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا یہ تماشا ہر سال لگتا ہے۔
ہر سال اِس کی مذمت ہوتی ہے اُور ہر سال ہی اِس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کیا جاتا ہے۔ بیماریاں الگ سے پھیلتی ہیں جبکہ گلی‘ محلوں اور شہروں کی خوبصورتی متاثر رہتی ہے۔ دیہی علاقوں میں روایت ہے کہ وہاں قربانی کے جانوروں کی الائشیں گڑھے کھود کر دفنا دی جاتی ہیں اور جانوروں کی قربانی کے بعد اُن کا خون بھی نالے نالیوں میں نہیں بہایا جاتا۔ یہ خون شہری علاقوں میں نکاسی¿ آب کے نظام پر بوجھ بن جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے نالے اُبلتے ہیں اور نکاسی¿ آب ’بعداَزعید‘ کئی ہفتوں تک متاثر رہتی ہے۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی ’عوام الناس کی جانب سے صفائی برقرار رکھنے کے لئے انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آیا ہے۔ حسب روایت صفائی کے لئے ذمہ دار حکومتی اداروں کے کردار پر تنقید بھی سننے میں آئی جنہوں نے عید الاضحی کے تینوں دن پندرہ سے بیس گھنٹے کام کیا لیکن ظاہر ہے کہ یہ خصوصی سہولت صرف مرکزی شہروں تک محدود رہی‘ جہاں پینے کے پانی کی فراہمی‘ سٹریٹ لائٹس‘ صفائی اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے جیسی بنیادی سہولیات حکومت نے اپنی ذمہ داری کے طور پر قبول کر رکھی ہیں اور اگرچہ اِن کا معیار تسلی بخش نہیں اور نہ ہی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر مرتب کردہ ہے‘ صرف یہ سمجھنا کہ عوام کی ذمہ داری صرف اور صرف بالغ حق رائے دہی کے ذریعے کسی کا انتخاب اور کسی کو رد کرنا ہے تو یہ سمجھنا درست نہیں اور یہ پہلو بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ عوام صرف طاقت ہی کا نہیں بلکہ تبدیلی کا بھی سرچشمہ ہوتے ہیں۔