وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہرپندرہ دن بعد تبدیل کرنے کی تجویز منظور کرلی ۔اجلاس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میںآئندہ ماہ کےلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھی غور کیا گیا۔ای سی سی نے تین لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کی بھی منظوری دے دی، چینی کی درآمد ٹی سی پی کے ذریعے کی جائے گی۔دریں اثناءوزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پٹرول بحران میں ملوث افراد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیاگیا۔ کابینہ نے پٹرول بحران پر کمیشن قائم کرنے کی منظوری دے دی کمیشن کے ممبران اور سربراہ کا تعین جلد کر لیا جائے گا،وفاقی کابینہ کوچینی کی دستیابی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی اور چینی درآمد کرنے کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔چینی اور گندم کی پیداوار میں خود کفالت کے باوجود دونوں اشیائے ضروریہ کی قلت ، ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں آئے روز اضافہ حیران کن بھی ہے اور تشویش ناک بھی ۔مارکیٹ میں چینی کی قیمت 35روپے فی کلو اضافے کے ساتھ 100 روپے ہوگئی ہے جبکہ بیس کلو آٹے کا تھیلا 500 روپے اضافے کے ساتھ 1300روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اس ملک کے جاگیر داراور سرمایہ داردانستہ طور پر اشیائے ضروریہ کے دام بڑھا کر حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت پر دباﺅ ڈال کر احتساب کا عمل روکا جاسکے ۔
اس سازش میں صرف اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جاگیردار اور کارخانے دار ہی ملوث نہیں ، خود حکومت کی صفوں میں موجود بعض کالی بھیڑیں بھی اس سازش کا حصہ ہیں شوگر مافیا کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ میں بہت سے شرفاءاور پردہ نشینوں کے نام سامنے آئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر اس ملک کے غریب عوام کو سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن سٹیٹس کو کا نظام برقرار رکھنے کے حامی سیاست دان اور بیوروکریسی نہیں چاہتی کہ قومی وسائل میں سے عام آدمی کو بھی کچھ حصہ ملے۔ احساس کیش پروگرام کے تحت غریبوں اور محنت کشوں میںڈیڑھ سو ارب روپے تقسیم کئے گئے دوسری جانب مراعات یافتہ طبقے نے چینی، گندم، آٹے، چکن اوردیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرکے عوام کو دیئے گئے ریلیف کا اثر زائل کردیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لینڈ مافیا، شوگر مافیا، ٹمبرمافیااور آٹا مافیا ریاست سے زیادہ طاقتور اور بااثر ہیں۔مسلح افواج، خفیہ ایجنسیاں،سول آرمڈ فورسز، عدلیہ اور انتظامیہ سب ہی حکومت کے ماتحت ہیں حکومت چاہے تو ریاستی طاقت کے ذریعے ان مافیاز کو نکیل ڈال سکتی ہے۔عوامی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے میں کیا امر مانع ہے۔حکومت اگر پارلیمنٹ میں عوام دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے قانون سازی نہیں کرسکتی اور اسے اپوزیشن کی مخالفت برائے مخالفت کا سامنا ہے تو آئین نے حکومت کا اختیار دے رکھا ہے کہ وہ آرڈیننس کے ذریعے سخت قوانین نافذ کرسکتی ہے ۔
تیزی سے سماعت کرنے والی خصوصی عدالتیں قائم کرکے ملک دشمن عناصر کو منطقی انجام تک پہنچا سکتی ہے۔عمران خان کے سیاسی مخالفین اپنی شاطرانہ چالوں سے حکومت کے اکثر فلاحی منصوبوں کو ناکام بناچکے ہیں مہنگائی میں گذشتہ دو سالوں کے اندر دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک کروڑ افراد کو روزگار فراہم کرنے کی دعویدار حکومت کے ابتدائی دو سالوں میںلاکھوں افراد کا روزگار چھن چکا ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی یہی شرح برقرار رہی تو عوام کے صبر کا دامن چھوٹ جائے گا اور وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے یہی حکومت کے مخالفین چاہتے ہیں ۔وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ عوام دشمن عناصر کو بے نقاب کرنے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ معاملہ کمیشن اور کمیٹیاں بنانے سے حل نہیں ہوسکتا۔ہمارے ہاں عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کسی معاملے کو لٹکائے رکھنا چاہے تو اس کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا جاتا ہے لیکن آج تک کسی کمیشن نے اپنے قیام کا مقصد حاصل نہیں کیا۔حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر گندم اور چینی درآمد کرے اور کنٹرول ریٹ پر عوام کو فراہم کرے تاکہ مال ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کرنے والی مافیا کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایاجاسکے۔