پاکستان نے بھارتی جبر و تشدد کے شکار کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کےلئے آج 5اگست کو یوم استحصال منانے کا اعلان کیا ہے،اس دن کی مناسبت سے حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کا اعلان کیا جائے گا، مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی جائیں گی سیمینار منعقد کئے جائینگے تصاویر کی نمائش کے ذریعے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کو اجاگر کیا جائےگا‘ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کا تشخص مٹانے کی کوشش کی انکا جھنڈا چھینا‘ انکی شناخت ختم کی‘ ریاست جموں و کشمیر کو 3 ٹکڑوں میں تقسیم کرنےکی کوشش کی لیکن کشمیریوں نے اسے ذہنی طور پر قبول نہیں کیا مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے‘ جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی متنازعہ کہتی ہیں، کشمیر میں آج بھی بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔ہمارے وزیر خارجہ کا کہنا ہے بھارت نے ری آرگنائزیشن ایکٹ نافذ کرکے کشمیریوں کی الگ شناخت ختم کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ جس کا مقصد کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت مردہ باد کے نعرے لگانے، ریلیاں نکالنے اور سیمینار منعقد کرنے سے کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی ممکن ہوگی؟ بھارت نے تقسیم ہند کے ایک سال کے اندر ہی فوجی طاقت کے ذریعے کشمیر کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ کررکھا ہے۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرف سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ اور کشمیریوں کے استصواب رائے کا حق تسلیم کئے جانے کے باوجود 73سالو ں سے یہ تنازعہ حل نہیں ہوپارہا‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے ایشو پر تین خونریز جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔بھارتی ظلم و استبداد سے تنگ آکر کشمیریوں نے آزادی کی تحریک شروع کی ہے اب تک 70ہزار سے زیادہ کشمیری مسلمان آزادی کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں شہید کئے جاچکے ہیں ہزاروں ماﺅں کی گود اور ہزاروں خواتین کے سہاگ اجڑ چکے ہیں ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں مقبوضہ وادی میں بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی سخت گیر اور بنیاد پرست جماعت اقتدار میں آئی ہے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ پہلے ایک قانون نافذ کرکے کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کردی گئی اب ایک نئے قانون کے ذریعے بھارتی فوج کو کشمیریوں کی زمین کو قومی مفاد کے نام پر اپنے تصرف میں لینے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی زمینیں چھین کر ہندو انتہا پسندوں کو وہاں آباد کیا جارہا ہے تاکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جاسکے‘ بھارت نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ بھی کشمیر کا حصہ ہے جس پر پاکستان نے زبردستی قبضہ جمارکھا ہے‘حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کو وہاں کے عوام نے خود ہتھیار اٹھاکر پہلے سکھوں اور گورکھوں سے آزاد کرایا ہے بلکہ بھارتی فوج کو بھی اپنے علاقے میں گھسنے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مس¾لہ طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ سیاسی بات چیت اور مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوسکتا ہے‘دونوں ملکوں کے درمیان شملہ میں طے پانےوالے معاہدے میں بھی کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا تاہم بھارتی فوج کشمیر کے مسئلے کا سیاسی حل نہیں چاہتی کیونکہ ان کا دانہ پانی اور عیش و عشرت کشمیر کے تنازعے کو برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔ جب بی جے پی کی حکومت بھی اپنی فوج کی ہمنوا بن گئی توصورتحال مزید کشیدہ ہوچکی ہے‘ بھارتی قیادت کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ اگر انہوں نے کشمیر کے معاملے پر لچک دکھانے کی کوشش کی تو تامل ناڈو‘ خالصتان اور بھارت میں پنپنے والی آزادی کی نصف درجن تحریکوں کو بھی شہ مل سکتی ہے اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کو ملک کے چھ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے پر سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘یہ بات طے ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک ہیں اگر دونوں ملکوں میں کشیدگی مزید بڑھ گئی تو جوہری تصادم کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جس سے پوری دنیا کا امن داﺅ پر لگ سکتا ہے اس لئے بھارت پر عالمی دباﺅ میں اضافہ ہی موجودہ حالات میں سب سے بہتر طریقہ ہے‘ اقوام متحدہ نے کشمیر پر حالیہ دنوں میں بڑا واضح موقف اختیار کیا ہے ۔سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق استعمال کرنے والے تمام ممالک اگر اقوام متحدہ کی گائیڈ لائن پر عمل کریں تو بھارت کو کشمیر سمیت تمام تنازعات کو حل کرنے کےلئے بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔