پہلی بات: اعدادوشمار خوفناک ہیں۔ ادارہ¿ شماریات نے ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کا موازنہ جاری کیا ہے جس کے مطابق ماہ جون کے مقابلے جولائی کے مہینے میں ڈھائی فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور چونکہ حکومت نے اگست میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا ہے اِس لئے جولائی کے مقابلے اگست میں مہنگائی کا تناسب مزید بڑھے گا اور حکومت کی عوام سے محبت کا وہ سلسلہ جو کبھی ایک سالانہ میزانیے سے دوسرے میزانیے (بجٹ) کے درمیان بڑھا کرتا تھا اب ہر ماہ بڑھ رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مہنگائی کی شرح 10 فیصد کو چھو رہی ہے! رواں سال جون کے مقابلے مالی سال کے پہلے مہینے کے دوران شہری علاقوں میں ٹماٹر 179فیصد‘’ گاڑیوں کا ایندھن 27فیصد‘ سبزیاں 24فیصد‘ انڈے 11فیصد ، پیاز 17فیصد‘ مصالحے 8فیصد، گندم 7فیصد‘ آلو 5فیصد‘ گوشت 4فیصد‘ چینی 4 فیصد‘ بیسن 3فیصد‘ چکن 3فیصد‘ دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات 2فیصد جبکہ ادویات کی قیمتوں میں مزید ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔دوسری بات: مہنگائی کی جڑ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہیں۔ وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 6 روپے 62پیسے فی لیٹر تک اضافہ کردیا ہے۔ ستائیس جون کو حکومت نے پٹرول اور ڈیزل سمیت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک27 سے 66فیصد یعنی پچیس روپے اٹھاون پیسے تک کا اضافہ کیا تھا۔ ایک ہی دن اور ایک ہی مرتبہ ہونے والا پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے زیادہ اضافہ تھا۔
قابل غور یہ بھی ہے کہ اس اقدام نے کئی افراد کو حیرت میں ڈال دیا کیونکہ یہ شیڈول سے ہٹ کر تھا اور معمول کے مطابق آئل سیکٹر ریگولیٹر کی جانب سے کوئی سمری بھجوانے کی وجہ سے نہیں ہوا۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ اقدام فراہمی کے سلسلے میں حالیہ تعطل کو دور کو کرنے کے لئے کیا گیا جو ملک کے کئی حصوں میں غیرمعمولی کمی کا سبب بنا اور اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت اور صنعت کے درمیان قیمتوں کا تنازعہ تھا۔ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاو¿ن کے عرصے میں پیٹرولیم مصنوعات مجموعی طور پر قریب ستاون روپے فی لیٹر تک سستی کی تھیں۔ پچیس مارچ سے یکم جون تک پٹرول37 روپے7 پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا‘ اسی عرصے میں ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں بیالیس روپے دس پیسے فی لیٹر کمی جبکہ مٹی کا تیل ستاون روپے اور لائٹ ڈیزل اُنتالیس روپے فی لیٹر سستا کیا گیا لیکن ابھی پٹرول سستا کرنے کے ثمرات ظاہر بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ المیہ اپنی جگہ ہے کہ جب پٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو اِس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے لیکن پٹرول مہنگا ہونے کا اعلان ہوتے ہی اشیائے خوردونوش سمیت ہر جنس کی قیمت اور خدمت کا معاوضہ یہ کہہ کر بڑھا دیا جاتا ہے کہ پیٹرول مہنگا ہو چکا ہے اور یہی طرزحکمرانی کا وہ امتحان ہے‘ جس کی 2018ءکے عام انتخابات سے قبل نشاندہی کرتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت نے پاکستان سے وعدہ کیا تھا کہ ملک کو ناجائز منافع خوروں اور گندم‘ آٹا‘ چینی‘ ادویات اُور پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والے مافیاز کے چنگل سے نجات دلائے گی۔
حالیہ اضافے (یکم اگست) کے مطابق پٹرول کی قیمت میں تین روپے چھیاسی پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جسکے بعد پٹرول کی نئی قیمت ایک سو تین روپے ستانوے پیسے پیسے ہوگی ہے جبکہ مال برداری کے لئے استعمال ہونے والے ایندھن کی قیمت میں پانچ روپے فی لیٹر کا اضافہ اپنی جگہ تشویشناک ہے۔ جب مال بردار ٹرک (گڈز ٹرانسپورٹرز) 106 روپے چھیالیس پیسے فی لیٹر ڈیزل خریدیں گے جو کہ پٹرول سے مہنگا ہے تو وہ نقل و حمل پر اخراجات میں اضافہ کردیا جائے گا۔ اصولاً پٹرول مہنگا اور ڈیزل سستا ہونا چاہئے بالخصوص سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے مال بردار گاڑیوں کے لئے ایندھن سستا ہونا چاہئے۔ عجیب و غریب منطق اور کاروباری حکمت عملی ہے کہ کئی کروڑ روپے کی گاڑی میں بیٹھے شخص اور موٹر سائیکل کی ٹنکی میں پچاس روپے کا پٹرول ڈلوانے کو ایک جیسی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے!
ذہن نشین رہے کہ لائٹ ڈیزل آئل زیادہ تر آٹے کی چکیوں اور چند بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس میں استعمال ہوتا ہے اور اِن دونوں کا تعلق عام آدمی سے ہے! عام آدمی کی آنکھوں سے مہنگائی کا رونا روتے روتے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی ذہانت پاکستان میں طرزحکمرانی کی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منفی ہو چکی تھیں اور دنیا کا ہر ملک موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنی ضرورت سے زیادہ تیل کی خریداری کر رہا تھا تاکہ کورونا وبا سے اُس کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی کچھ تلافی ہو سکے لیکن پاکستان نے اُس نادر موقع سے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ حکومت کی جانب سے تیل درآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور یوں ایک موقع ہاتھ سے جاتا رہا بلکہ مذکورہ غلط فیصلے کی بدولت پٹرول کی قلت دیکھی گئی پٹرول پمپوں پر قطاریں دیکھی گئیں جب پٹرول ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا۔