انسان کی زندگی خوشی و غمی کامرکب ہوا کرتی ہے اور زندگی یقینا امتحان بھی لیا کرتی ہے ہر انسان کی زندگی میں بعض اوقات ایسے موڑ آتے ہیں جس سے نکلنے والی دکھ کی لہروں کی شدت پھر مرتے دم تک برقرار رہتی ہے انسان بھی عجیب مخلوق ہے روتے ہوئے آتا ہے اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت سب کو رلا جاتا ہے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو انسان نہ بھلا سکتا ہے اور نہ وہ بھلائے جانے والے ہوا کرتے ہیں ہم انسان اور اس قسم کے رشتوں کے درمیان تعلق کو اگر کوئی ختم کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف موت کی ایک اٹل حقیقت ہے اور گزشتہ ہفتے کے دوران ہمارے بعض دوستوں کو ایسے ہی کٹھن مراحل اور آزمائشوں سے گزرنا پڑاموت برحق ہے مگر کہتے ہیں کہ چھوٹے تابوت کا وزن سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے اور اس کا احساس صرف اسی کو ہو سکتا ہے جس نے کبھی چھوٹے مگر بھاری جنازے اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے ہوں ہمارے دوست عارف یوسفزئی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا اس نے گاﺅں جاتے وقت اپنے دوجگرگوشوں کو اس امید پر پشاور میں رہنے دیا کہ واپسی کے بعد تیاریاں مکمل کرکے بھرپور طریقے سے عید منائیں گے مگر اسے علم نہ تھاکہ وہ بچے پھر اسے زندہ دیکھنا نصیب نہیں ہونگے ایک حادثے نے اس کے دونوں بچے اس سے چھین لیے موسیٰ تو چلا گیا تھا اس نے جاتے جاتے اپنی بہن کو بھی ساتھ بلالیا موسیٰ نے تو اپنے والد کویہ کہہ کرجانے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی کہ کوروناوبا پھیلی ہوئی ہے اس لیے آپ لوگ بھی باہر نکلتے وقت احتیاط کیا کیجئے موسیٰ نے وعدہ کیاتھاکہ میں صرف ایک بجے تک گیم کرکے موبائل بند کر کے سو جاو¿ں گا لیکن عارف کو پتہ نہیں تھا کہ وہ جب واپس آئے گا تو یہ بچے اسے اس حالت میں نہیں ملیں گے جس حالت میں وہ انہیں چھوڑ کر جارہاہے۔
اس حادثے میں تو موسیٰ چلا گیا اور بہت جلدی چلا گیا شاید اسے جانے کی بہت جلد ی تھی اس کے ساتھ ہی اگلے دن اس نے اپنی بہن کو بھی اپنے پاس بلالیا اکلوتا ہونے کی وجہ سے چونکہ لاڈلا تھا اس لیے ہمیشہ سے اپنی بات منوا لیا کرتا تھا اب جاتے جاتے اپنے ساتھ وہ اپنی بہن کو بھی لے گیا اس نے یہ نہ سوچا کہ اس کے جانے کے بعد اس کے ماں باپ اور خاص طور پر اس کی والد ہ پر کیا قیامت گزرے گی سچ ہے کہ وقت ہی پھر اس قسم کازخم مندمل کرسکتاہے اس حادثے نے ہمارے حوصلہ مند اورہر جگہ آگے رہنے والے عارف کو ادھ مﺅا چھوڑ دیا لیکن شکر ہے کہ اس کا حوصلہ اب بھی جوان ہے اور ثابت کردیاہے کہ اللہ نے اسے جس آزمائش کے لیے چنا ہے وہ اس پر پورا اترنے کاحوصلہ رکھتاہے بچوں کے بچھڑنے کادکھ جس طرح انسان کو کھاجاتاہے اسی طرح جب ماں رخصت ہوتی ہے تو انسا ن کے لیے دعاﺅں کی فیکٹری بند ہوجاتی ہے ہم جیسے کم نصیبوں کے لیے تو یہ فیکٹری کم وبیش دوعشرے قبل ہی بند ہوچکی ہے ہمارے دوست ارباب فاروق جان کو بھی اس صدمے سے گزشتہ دنوں گزرنا پڑاہے ارباب فاروق جان پشاور کی ارباب فیملی کے چشم وچراغ ہیں۔
ان کے والد تحریک پاکستان کے سرگر م کارکن تھے اور اسی سلسلہ ان کو گولڈ میڈل بھی ملاہواتھا خودارباب فاروق جان ان دنوں جے یو آئی کے ایک سرگرم رہنما کے طورپرخود کو منوانے میں مصروف ہیں ان کی والدہ کے انتقال پرتعزیت کے لیے گئے توانہوں نے ایک عجیب بات بتائی کہ میری والد ہ ہمیشہ اپنے لیے کفن تیار رکھاکرتی تھیں اوران کی وصیت تھی کہ مجھے میرے ہی کفن میں دفن کی کیاجائے انہوں نے بتایاکہ میری والد ہ عذاب قبر سے بہت پناہ مانگاکرتی تھیں جب ان کو بتایا گیاکہ 1340بار سورہ ملک کی تلاوت کی جائے تو قبر روشن ہوجاتی ہے تو انہوں نے زندگی میں ہی کئی بار سورہ ملک 1340مرتبہ پڑھ کر کپڑے کے ایک ٹکڑے کی نشانی بناکر اپنے کفن میں ٹانک دی تھی اور یوں جانے سے قبل اپنی قبر کو رو شن رکھنے کااپنے طورپر پوراپورا اہتمام کرکے گئیں اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں توہم نے ہرموقع کی مناسبت سے پوری تیاری کی ہوتی ہے مگر صرف موت ایسی حقیقت ہے جس کاسامناکرنے کے لیے ہماری تیاریاں نامکمل تو کیا اکثر ہوتی ہی نہیں ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے لیے کفن کابندوبست پہلے سے کیاہوگا توکیاہم واقعی موت کو بھلا بیٹھے ہیں ارباب فاروق جان کی بات سن کر اس امرکااحسا س ہوا کہ دنیا کو روشن رکھنے کے لیے ہم کتنے ہی جتن کرتے ہیں کاش قبر کو روشن رکھنے کے لیے بھی تیاریاں بروقت مکمل کرنے کی روش اختیار کرلیں ۔