خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس ہر گزرتے دن کے ساتھ بے اثر ہوتا جارہا ہے اور اس عالمی وبا کے فعال کیسز کی تعداد بیس ہزار سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے۔ کورونا وبا سے پاکستان میں کل ہلاکتیں چھ ہزار سے زیادہ رہیںلیکن یہ خطے کے کئی ممالک سے انتہائی کم ہیں اور حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 90فیصد سے بڑھ چکی ہے جو پاکستان سے اس وبا کے مکمل خاتمے کے لئے امید کی کرن ہے۔پانچ اگست کی صبح تک پاکستان میں کورونا کے 290 متاثرین اور 5اموات کا اضافہ ہوا جبکہ مزید 4ہزار 889افراد صحت یاب بھی ہوئے۔ ذہن نشین رہے کہ دسمبر 2019ءکے دوران چین سے سفر شروع ہونے والے کورونا وائرس کا پاکستان میں پہلا کیس 26فروری کو سامنے آیا{‘ جس کے بعد سے اب تک اس وبا کو پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے اور اس پورے عرصے کے دوران ابتدا میں ملک میں کورونا کیسز کی تعداد کم تھی تاہم مارچ کے بعد سے ان کیسز میں اضافہ دیکھا گیا۔ اپریل کے مہینے میں کچھ حد تک کیسز بڑھنے کے بعد مئی اور جون میں کورونا وائرس کے کیسز بلندی تک جاتے دکھائی دیئے تاہم جولائی کے مہینے میں ان کیسز کی یومیہ تعداد میں کچھ کمی آئی۔ اگست کے آغاز میں اگرچہ عید الاضحی ہونے کے باوجود کیسز کی تعداد کم رہی جبکہ اموات میں بھی گزشتہ اعدادوشمار کے مقابلے میں اس طرح کا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔کورونا وبا کو شکست صرف اور صرف اِس کے علاج کی صورت ہی دیا جا سکتا ہے۔
اِحتیاطی تدابیر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اِنہیں جب تک اِختیار کیا جائے گا‘ تب تک کارآمد رہیں گی لیکن جیسے ہی بے احتیاطی کی گئی تو وبا پھیلنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اَقوام متحدہ اور طبی شعبے کی متعلقہ شاخ کے ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا وبائی مرض نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں تباہی مچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی تباہی سے دنیا بھر میں تنازعات اور تناو¿ میں شدت پیدا ہوسکتی ہے۔ امدادی ایجنسیوں کی طرف سے پہلے ہی اِس بات کے خدشات ظاہر کئے جا چکے ہیں کہ کورونا وائرس انسانی ہمدردی کے پروگراموں میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے‘ ایسی ٹیمیں جو تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں آزادانہ طور پر کام نہیں کرسکتیں یا شدید معاشی مشکلات کا شکار افراد کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی ہیں۔ وبائی مرض کا یہ مطلب بھی ہے کہ طویل عرصے کی جنگ سے متاثرہ تباہ حال معیشتوں کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے بجائے اخراجات کو بیماری سے نمٹنے کے لئے استعمال کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق‘ وبا کا معاشی اثر مزید خراب ہوسکتا ہے اور یہ مزید اضطراب کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی سطح پر کورونا کے اثرات بارے یمن‘ لیبیا اور شام کی مثالیں دی گئی ہیں جہاں وبا پھیلنے کا عمل جاری ہے اور اِس سے پیدا ہونے والی صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔
ماہرین پہلے ہی یمن کے تنازعہ کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دے چکے ہیں۔ یمن میں خشک سالی اور قحط حقیقی خطرہ ہے اور اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ لبنان جیسے دوسرے ممالک کو بھی تنازعات کی حالت میں کھینچا جائے گا۔ لاک ڈاو¿ن کا مطلب یہ ہے کہ معیشتوں کو دوبارہ تعمیر کا کوئی موقع نہیں ملا جبکہ بے روزگاری عالمی سطح پر بڑھ چکی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کئی مہینوں اور ممکنہ طور پر کئی برس تک یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے! جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک‘ جو لیبیا میں مداخلت اور لڑائی کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘ اب وہ یورپ کی صورتحال اور اس پر قابو پانے کی کوششوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ سماجی فاصلہ اختیار کرنے‘ ہر وقت ماسک پہنے رہنے اور نقل و حرکت محدود ہونے کے خلاف پہلے ہی کئی ممالک بشمول ترقی یافتہ دنیا میں احتجاج دیکھنے میں آ رہے ہیں جبکہ امریکہ برطانیہ اور یورپ میں تو پر تشدد مظاہرے بھی دیکھے گئے ہیں۔ یہ سب اُن عالمی تنازعات کا آغاز ہے جن کے بارے میں عالمی ادارہ¿ صحت نے متنبہ کیا ہے اور اِسے پاکستان کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ایک وبائی بیماری نے کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اِس سے نمٹنے کے لئے اختیار کئے جانےوالے طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ عالمی اِدارہ¿ صحت نے جو انتباہ جاری کیا ہے اُس میں صورتحال سے نمٹنے کی اگرچہ کوئی بات نہیں کہی گئی اور نہ ہی مشکل کا حل تجویز کیا گیا ہے لیکن طے شدہ امر یہی ہے کہ کورونا وبا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر اُس وقت تک عمل درآمد جاری رہنا چاہئے جب تک کہ وائرس پر بذریعہ علاج قابو نہیں پا لیا جاتا اور یہی وہ نکتہ ہے کہ اُس وقت تک عالمی پریشانیاں جاری رہیں گی۔