ڈاکٹر فیصل سلطان کو وزیر اعظم عمران خان کا معاون خصوصی برائے صحت مقرر کردیا گیا ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ ڈاکٹرفیصل سلطان شوکت خانم ہسپتال میں ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں ، ڈاکٹرفیصل سلطان کو وزیراعظم نے کورونا وباءپر قابو پانے کے لئے فوکل پرسن مقرر کیا تھا۔اس عہدے پر وہ بدستور کام کر رہے ہیں۔ڈاکٹر فیصل سلطان کی بطور معاون خصوصی تقرری کے بعد وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کی نصف سنچری مکمل ہوگئی ‘جن میں وزیراعظم کے مشیر اور معاونین خصوصی شامل ہیںچند روز پہلے وزارت صحت کے معاون خصوصی ظفر مرزا اورتانیہ ایدروس اپنے اوپر دہری شہریت کے الزامات کی وجہ سے مستعفی ہوگئے تھے۔موجودہ وفاقی کابینہ میںوزراءکی تعداد 27 اور وزرائے مملکت کی تعداد 4 ہے۔کابینہ میں 5 مشیر اور معاونین خصوصی کی تعداد بڑھ کر 14 ہو گئی ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق معاون خصوصی تانیہ ایدروس کے مستعفی ہونے کے بعد اس عہدے پر ابھی تک وزیراعظم نے نئی تقرری کا اعلان نہیں کیا۔وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کو وہی مراعات حاصل ہیں جو وفاقی وزراءاور وزرائے مملکت کو حاصل ہیں ۔وزیراعظم اپنی کابینہ کے ارکان ، مشیروں اور معاونین کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور گزشتہ دو سالوں کے اندر کابینہ میں متعدد بار تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں عمران خان نے اپنی کابینہ پر واضح کردیا ہے کہ جس وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی وہ اپنے منصب پر برقرار نہیں رہ سکتا۔
پارلیمانی نظام حکومت کی ایک مجبوری یہ ہوتی ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی صورت میں دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بناتی ہے۔حکومت سازی میں کوئی سیاسی جماعت فی سبیل اللہ ساتھ نہیں دیتی، ان کے ناز نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں ان کے ارکان کو وزیر، مشیر اور معاون بناکر اپنے ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ جب التفات میں کمی نظر آئے تو اتحادی جماعت ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دے کر اپنا مطلب نکال لیتی ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی کابینہ کا حجم بھی اسی تناسب سے بھاری ہوگا۔ہر وزیر، مشیر اور معاون کو اسلام آباد میں سرکاری رہائش، جھنڈے والی گاڑی، گارڈ اور تنخواہ و دیگر مراعات کے ساتھ کروڑوں روپے کے صوابدیدی فنڈزبھی دیئے جاتے ہیں۔ ان کے ٹی اے، ڈی اے ، سیرو تفریح، بیرونی دوروں اور علاج معالجے کے اخراجات الگ ہیں ہر وفاقی وزیر، وزیرمملکت ، مشیر اور معاون خصوصی پر ماہانہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں اسی حساب سے کابینہ کے پچاس ارکان کے ماہانہ اخراجات لگ بھگ ایک ارب روپے بنتے ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر، غریب اور مقروض ملک پر اضافی اخراجات کا یہ بوجھ بلاجواز اور ناقابل برداشت ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی کفایت شعاری کی مہم شروع کررکھی ہے۔ہر تین مہینے بعد کفایت شعاری مہم کے نتائج پر مبنی اعدادوشمار جاری کئے جاتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں وزرات نے اپنے اخراجات کم کرکے اتنی بچت کی ہے ۔
کروڑوں روپے غیر ضروری مدات پر خرچ کرکے چند لاکھ روپے کی بچت کا قوم کو کیا فائدہ ہوتا ہے یہ فلسفہ آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ سمیت جن ممالک میں صدارتی نظام حکومت قائم ہے وہاں وفاقی وزراءکی تعداد دس بارہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔کابینہ کی محدود تعداد نہایت حسن انتظام کے ساتھ حکومت چلاتی ہے۔ برطانیہ جیسے پارلیمانی نظام والے ممالک میں بھی وفاقی وزراءکی تعداد پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ صرف پاکستان اور بھارت میں وزراءکی فوج رکھنے کی روایت ہے۔جو کام آٹھ دس وزیروں کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے اس کام کے لئے پچاس ساٹھ وزیروں کی فوج رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔پی ٹی آئی نے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا نعرہ بھی لگایاتھا۔ لیکن حکومت کے تمام وزیر، مشیر اور معاونین وی وی آئی پی پروٹوکول کے بغیر دفتر سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔وزراءاور اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز ختم کرنے کا وعدہ بھی موجودہ حکومت ایفا نہیں کرسکی۔ یہ بات وزیراعظم عمران خان بخوبی جانتے اور کئی بار اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز عوام پر خرچ نہیں ہوتے یہ فنڈزسیاسی رشوت کے طور پراستعمال کئے جاتے ہیں۔پاکستانی قوم بہت غریب ہے خصوصاً موجودہ حکومت کے ابتدائی دو سالوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے ساتھ غربت کی شرح میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لئے بھی بین الاقوامی اداروں سے بھاری شرح سود اور ناپسندیدہ شرائط پر قرضے لینے پڑتے ہیں۔اس لئے مانگے تانگے کے پیسوں پر حکمرانوں کی عیاشی یہ قوم مزید برداشت نہیں کرسکتی۔