چین نے ہمالیہ کوریڈور منصوبے کی تجویز پیش کی ہے جس کے تحت نیپال کوتبت اور سنکیانگ کے ذریعے زمینی راستے سے گوادرکے ساتھ ملایا جائے گا۔نیپال اور افغانستان کے وزرائے خارجہ اور پاکستان کے وزیر معاشی ترقی کیساتھ گذشتہ روز ویڈیو کانفرنس میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے عالمی وباءکے خلاف تعاون کو فروغ دینے کیلئے گرین کوریڈور کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔انہوں نے ٹرانس ہمالیہ راہداری کی تعمیر اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر زور دیا۔اسلام آباد کی تجویز پربیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو افغانستان تک توسیع دینے کی توثیق کی ہے افغانستان کے لیے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے گذشتہ ماہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے پاکستان پر بھی دبا ڈالنے کی کوشش کی تھی اور خطے کیلئے امریکی منصوبوں میں تعاون پر زور دیاتھا زلمے خلیل زاد نے تجویز دی کہ ازبکستان کو افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت کیساتھ ملانے کے ریلوے منصوبے کی تعمیر کیلئے امریکہ مالی معاونت فراہم کر سکتا ہے تاہم پاکستان نے فوری طور پر چین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سی پیک کے حوالے سے امریکی دباﺅ میں نہیں آئے گا۔ کابل کی خوشنودی کیلئے پاکستان نے بھارت کیساتھ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندی اٹھا لی جبکہ افغانستان کیساتھ چمن اور طورخم سمیت تمام تجارتی راستے کھول دیئے ہیں ۔ان مجوزہ تجارتی راہداریوں کا مقصد شورش زدہ افغانستان کے راستے وسط ایشیاءکو جنوبی ایشیاءاور مشرقی وسطیٰ سے ملانا ہے۔
اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھارت کے مخاصمانہ رویے نے خود نئی دہلی کے لئے نئے محاذ کھول دیئے ہیں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور برما کے ساتھ بھارت کے سرحدی تنازعات نے اسے جنوبی ایشیاءمیں تنہا کردیا ہے چین کے ساتھ کشیدگی اور فوجی پسپائی کے بعد بھارت کی خطے میں پوزیشن مزید کمزور ہوگئی ہے جس کا چین نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیاہے۔ نیپال کو زمینی راستے سے گوادر کے ساتھ ملانے کے ہمالیہ کورویڈور منصوبے نے جہاں بھارت اور امریکہ کی نیندیں اڑادی ہیں وہیں خطے میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ جنوبی اور وسطی ایشیاءکو زمینی راستے سے ملانے کے بعد پاکستان خطے کا بڑا تجارتی حب بن جائے گا۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک توسیع دینے سے نہ صرف اس خطے میں بڑی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلی آئے گی بلکہ دنیا سے کٹے ہوئے وسطی ایشیائی ملکوں کو گرم پانی تک رسائی ملے گی اور خطے میں امریکہ اور بھارت کا اثرورسوخ تقریباً ختم ہوجائے گا۔ وسطی ایشیائی ملکوں تک زمینی راستے سے رسائی کے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لواری ٹنل منصوبے پر کام شروع کیاگیا تھا۔ یہی راستہ وسطی ایشیاءکی ریاستوں تاجکستان، ازبکستان، آذربائیجان اورقازقستان تک پہنچنے کا واحد اور سب سے محفوظ راستہ ہے۔ چترال سے تاجکستان کا فضائی فاصلہ صرف نصف گھنٹے کا ہے۔
جبکہ لواری ٹنل سے چترال، بونی، مستوج، یارخون ، بروغل اور واخان کے راستے تاجکستان کا زمینی فاصلہ تین سو کلو میٹر سے بھی کم ہے۔ بروغل، واخان اور تاجکستان تک کا راستہ ہموار ہونے کے ساتھ مکمل طور پر محفوظ بھی ہے۔ جس کی تعمیر میں ایک سال سے بھی کم عرصہ لگ سکتا ہے۔شاہراہ ریشم کو گلگت ، شندور اور مستوج کے راستے تاجکستان روڈ کے ساتھ ملایاجاسکتا ہے جو متبادل روٹ کے طور پر بھی استعمال کیاجاسکتا ہے۔اس راہداری کی بدولت وسطیٰ ایشیائی ممالک اپنے تیل، گیس اور بجلی کے وسیع ذخائر عالمی مارکیٹ تک پہنچا سکیں گے جس سے ان ممالک کی معیشت بدل جائے گی پاکستان کے لئے ون بیلٹ ون روڈ کا یہ منصوبہ کسی نعمت سے کم نہیں۔اس کی بدولت پاکستان نہ صرف دنیا کا بڑا تجارتی روٹ بن جائے گا بلکہ اس کی توانائی کی تمام ضرورتیں بھی پوری ہوں گی روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اورپورے خطے کی قسمت بدل جائے گی۔ان بیش بہا فوائد کا حصول اتنا آسان نہیں، اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں خصوصاً امریکہ اور بھارت اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے وہ لالچ دینے اور ڈرانے دھمکانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ تاہم خطے کے ممالک کو اپنے بہتر مستقبل کے لئے ان خطرات کا پامردی سے سامنا کرنا ہوگا۔اور جب چین جیسی معاشی اور فوجی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہو توپاکستان، افغانستان اور نیپال کو مخالفین کی ریشہ دوانیوں سے خوفزدہ ہونے کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے۔