تحقیق سے اخذ ہوا ہے کہ ”کورونا وبا کے باعث لاکھوں افغان جو پہلے ہی غربت کا شکار تھے‘ مزید معاشی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ چالیس برس سے داخلی جنگی تنازعات کی وجہ سے افغانستان میں صحت کا شعبہ خاطرخواہ ترقی نہیں کر سکا جبکہ کورونا وبا کے باعث پاکستان کے ساتھ سرحد کی بندش کے باعث اشیائے خوردونوش کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے۔“ امریکہ کا معروف عسکری اِدارہ ’سپیشل اِنسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن SIGAR‘ سہ ماہی بنیادوں پر تحقیقی جائزہ رپورٹ جاری کرتا ہے‘ جس کی سابق اور حالیہ دستاویزات ویب سائٹ (sigar.mil) سے مفت ڈاو¿ن لوڈکی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ کسی بھی ملک کی فوج کے اپنے خاص اہداف ہوتے ہیں اور انہی کی روشنی میں سیاسی و سماجی اور خدمات کے شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے لیکن امریکہ کی عسکری قیادت پر مشتمل مذکورہ تنظیم کا مرتب کردہ حقائق نامہ افغانستان کی صورتحال اور اُن پہلوو¿ں کو سمجھنے میں بڑی حد تک مددگار ہے‘ جن کا مذکورہ رپورٹ میں ذکر نہیں لیکن اُن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح غیرملکی افواج اور امداد کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں قیام امن کی کوششیں نہ تو آگے بڑھ رہی ہیں اور نہ ہی وہاں رونما ہونے والے تشدد و خونریزی میں کسی صورت کمی آ رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا بیان ہے کہ جب تک عوام کے حقیقی نمائندے برسراقتدار نہ ہوں اُس وقت تک کسی بھی حکمت عملی کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ افغانستان کے شانہ بشانہ ایک دنیا کھڑی ہے۔
لیکن وہاں تعمیروترقی کا عمل نہ تو آگے بڑھ رہا ہے اور نہ ہی افغانستان کی عالمی تنہائی میں کمی آئی ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بیروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ کورونا وبا کے پھیلنے کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر بھی دیکھنے میں نہیں آ رہیں جو پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ اگر افغانستان کے ساتھ سرحدی آمدورفت کو کسی مرحلے پر بحال کیا جاتا ہے تو اِس سے اندیشہ رہے گا کہ کورونا وائرس کی بھی بڑے پیمانے پر سرحد پار سے آمد ہوگی۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکہ کی بیرون ملک بالخصوص مشرق وسطی میں جنگی مہمات میں حصہ لینے کو ”سب سے بڑی غلطی“ قرار دیا اور کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ رواں برس کے اختتام سے قبل پانچ ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رکھا جائے گا اور باقی تمام فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا۔ امریکی فوجیوں کو افغان سرزمین پر اُترے اُنیس برس ہو چکے ہیں! اور صدر ٹرمپ نے صدراتی انتخابات سے قبل امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کو بطور منشور اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنائے رکھا جسے اُن کے سیاسی نظریاتی مو¿قف کا اہم ستون کہنا چاہئے۔
اگرچہ ٹرمپ نے مشرق وسطی میں امریکی مداخلت پر تنقید کی ہے جو کہ وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور انہوں نے کچھ دعوو¿ں کو دہرایا بھی ہے۔ لائق توجہ ہے کہ شام ہو یا عراق‘ افغانستان ہو یا سعودی عرب اور بھارت‘ جہاں کہیں امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے مداخلت کی اُس سے خیر کے پہلو برآمد نہیں ہوئے اور صورتحال ہر دن بگڑتی چلی گئی! حالیہ انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ”افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بتدریج کم کرتے ہوئے چار ہزار پر لائی جائے گی۔ وہ پہلے ہی طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد کم ہوکر قریب ساڑھے آٹھ ہزار ہوچکی ہے۔“ امریکہ طالبان امن معاہدے سے قبل اور بعدازاں بھی افغان طالبان کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ہونا چاہئے چونکہ طالبان اپنے اِس مو¿قف پر ڈٹے ہوئے ہیں جو کہ سراسر جائز ہے اور امریکہ کے پاس افغانستان میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے کا کوئی جواز بھی نہیں‘عالمی ذرائع ابلاغ پر اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ ہم خیال تجزیہ کاروں کے ذریعے یہ تاثر پھیلا رہا ہے کہ اگر پہلے سے غیر مستحکم افغانستان سے اُس کی افواج کا مکمل انخلا ہوا تو اِس ”جلدبازی“ سے افغانستان میں مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مسائل سے زیادہ بڑا کوئی دوسرا مسئلہ نہیں ہوسکتا جو بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اگرچہ امریکہ خود کو افغانستان کے لئے مسئلہ نہیں سمجھتا لیکن اگر افغانوں کی رائے معلوم کی جائے تو اکثریت امریکہ ہی کو افغان مسئلے کا مرکزی کردار بیان کرے گی ۔ اگر شراکت اقتدار یا انتخابات کے ذریعے افغان عوام کے اِن حقیقی نمائندوں کو قومی فیصلہ سازی سونپ دی جائے تو یہ نہ صرف افغان پائیدار ترقی و امن کی بحالی کے لئے مفید رہے گا بلکہ خطے کے ممالک میں افغانستان کے داخلی مسائل کو لیکر جو تشویش پائی جاتی ہے اُس میں بھی خاطرخواہ کمی آئے گی۔