پیاز اور لہسن پر مشتمل 1،000 سال قدیم ٹوٹکے سے خطرناک جراثیم کا خاتمہ

 برطانوی سائنسدانوں نے پیاز اور لہسن پر مشتمل 1,000 سال قدیم طبّی نسخہ استعمال کرتے ہوئے تجربہ گاہ میں خطرناک اور سخت جان جرثوموں کو ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹ‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع شدہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر پیاز، لہسن، گائے کا صفرا (جگر کی زردی مائل رطوبت) اور وائن کو آپس میں ملا کر مرہم بنا لیا جائے تو وہ ایسے جرثوموں تک کو بہ آسانی ہلاک کرسکتا ہے جن کے خلاف جدید ترین اینٹی بایوٹکس (ضد حیوی ادویہ) بھی غیر مؤثر ہوتی چلی جارہی ہیں۔

 
یونیورسٹی آف واروِک، یونیورسٹی آف سینٹرل لنکاشائر اور یونیورسٹی آف نوٹنگھم کی اس مشترکہ تحقیق میں 1000 سال قدیم کتاب ’’بالڈز لیچ بُک‘‘ میں لکھے طبّی نسخوں اور ٹوٹکوں کا جائزہ لیا گیا؛ جسے قرونِ وسطی کے برطانیہ میں اوّلین طبّی درسی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اگرچہ اس کتاب میں شامل بہت سے نسخے اور ٹوٹکے جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں بے بنیاد اور غلط ثابت ہوئے ہیں لیکن ماہرین کو اسی کتاب میں سے چند نسخے ایسے بھی ملے ہیں جن میں کسی نہ کسی حد تک صداقت محسوس ہوئی۔ 2019 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ بالڈز لیچ بُک میں سخت جان جرثوموں (بیکٹیریا) کو ختم کرنے میں مددگار معلومات موجود ہوسکتی ہیں۔

 
اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے مذکورہ ماہرین نے ’’بالڈز آئی سالو‘‘ (Bald’s Eyesalve) کہلانے والے ایک مرہم کو نئے سرے سے بنانے کا فیصلہ کیا۔ کتاب کی عبارت میں ابہام اور گزشتہ برسوں کے دوران اس بارے میں کیے گئے ابتدائی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے پیاز/ گندنا (پیاز کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک سبزی)، لہسن، گائے کا صفرا (گائے کے جگر میں بننے والی زردی مائل رطوبت) اور وائن کے آمیزے سے 75 مختلف مرہم تیار کیے۔

ان میں سے پیاز والے 15 اور گندنا والے 15 مرہموں نے پیٹری ڈش میں رکھے گئے سخت جان جرثوموں کو ہلاک کرنے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ اسٹیفائیلوکوکس آریئس اور اس جیسے دوسرے کئی خطرناک جراثیم نے حالیہ برسوں کے دوران ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کے خلاف مزاحمت نہ صرف پیدا کرلی ہے بلکہ اس مزاحمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں یہ دوائیں ناکارہ ہوتی جارہی ہیں۔

ابتدائی مرحلے میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ افاقہ ہوجاتا ہے لیکن اگر یہ بیکٹیریا ایک ساتھ جمع ہو کر باریک جھلی جیسی شکل اختیار کرلیں (جسے ’بایو فلم‘ کہتے ہیں) تو پھر اس جھلی کو توڑنے اور جرثوموں کو مارنے کےلیے اینٹی بایوٹکس کی جو مقدار درکار ہوتی ہے، وہ معمول کے مقابلے میں کم از کم 500 گنا زیادہ ہوتی ہے جو بیکٹیریا کے ساتھ ساتھ مریض کی بھی جان لے سکتی ہے۔ اسی لیے بعض مرتبہ بیکٹیریا سے شدید متاثرہ عضو کو کاٹنا پڑ جاتا ہے۔


ان تجربات کے دوران ماہرین نے دیکھا کہ پیاز/ گندنا اور لہسن والے مرہم نے بیکٹیریا کو نہ صرف انفرادی طور پر بہت خوبی سے ہلاک کیا بلکہ ان کی بایو فلمز کو بھی تباہ کرکے ختم کردیا۔ یہ ایک ایسی خاصیت ہے جو جدید ترین اینٹی بایوٹکس میں بھی موجود نہیں۔

اسٹیفائیلوکوکس آریئس کے علاوہ مذکورہ مرہم ایکینوبیکٹر باؤمینیائی، اسٹینوٹروفوموناس مالٹوفولیا، اسٹینوٹروفوموناس ایپی ڈرمس، اسٹینوٹروفوموناس پایوجینیس اور ان جیسی دیگر اقسام کے جرثوموں کو بھی کامیابی سے ختم کیا۔

ماہرین کو امید ہے کہ یہ مرہم ذیابیطس میں پیروں کے زخموں (ڈائبیٹک فٹ السر) کے علاج میں بھی بہت مفید ثابت ہوگا کیونکہ یہ زخم مندمل نہیں ہوتے بلکہ اندر تک پھیلتے چلے جاتے ہیں جن کی وجہ سے متاثرہ مریض کا پیر کاٹنا پڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ مریض پانچ سال سے زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ پاتا۔

ایک اور انکشاف یہ بھی ہوا کہ مرہم میں شامل اجزاء کو جب الگ الگ کرکے آزمایا گیا تو وہ جراثیم کے خاتمے میں بالکل غیر مؤثر رہے؛ اور انہوں نے صرف اسی وقت زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب مرہم میں تمام اجزاء صحیح مقدار میں ملائے گئے۔ اس اضافی دریافت کی روشنی میں یہ خیال پختہ ہورہا ہے کہ روایتی طور پر جڑی بوٹیوں سے علاج (ہربل میڈیسن) کو سمجھنے کےلیے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔