کمپیوٹر گرافک ڈیزائنر عاصم الطاف نے کراچی کے 108سیاحتی مقامات کا ایسا نقشہ تخلیق کیا ہے جس میں آثار قدیمہ‘ تاریخی عمارتیں‘ تعلیمی ادارے‘ علاج گاہیں‘ تفریحی مقامات‘ سبزہ زار‘ ہوٹل‘ عبادت گاہیں‘ بندرگاہ اور ایسے ساحلی علاقے بطور خاص نمایاں کئے گئے ہیں۔ سٹی آف لائٹس (روشنیوں کے شہر) کے نام سے مذکورہ نقشے کے ذریعے اُن تمام مقامات کی نشاندہی کر دی گئی ہے جہاں ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے سہولیات کسی نہ کسی صورت موجود ہیں‘ نقشے میں رہائشی و صنعتی علاقوں کی حدود واضح کی گئی ہیں‘ اپنی نوعیت کی یہ منفرد کوشش اِس لحاظ سے ’قابل ذکر‘ ہے کہ اگر یہی کام وفاقی یا صوبائی حکومت کرنا چاہتی تو کئی ادارے مل کر اور لاکھوں روپے مختص کرنے کے بعد کروڑوں روپے خرچ کر دیئے جاتے تب بھی اِس قدر خوبیوں کا مجموعہ یعنی ”جامع‘ جدید اور تازہ ترین“ سیاحتی نقشہ تیار نہ ہو سکتا‘ ضمنی موضوع ہے کہ کسی نقشے کو مرتب کرتے وقت پانچ بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے جن میں سرفہرست اِس کے درست فاصلے اور سمت شمال (north) کی جانب معین کی جاتی ہے‘ انٹرنیٹ پر منحصر ٹیکنالوجی (گوگل میپ) کے دور میں کاغذ پر شائع شدہ نقشوں کی ضرورت تو کم ہوئی ہے لیکن اِن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں باالخصوص غیرملکی سیاحوں کی اکثریت کسی ملک کی سیر کے لئے نکلنے سے قبل اُس کے بارے میں سیاحتی معلومات پر مبنی دستاویزات کا مطالعہ ضرور کرتے ہیں ۔
اور اِس سلسلے لونلی پلینیٹ (lonelyplanet.com) بہت سے مستند اداروں میں سے ایک ہے‘ جس نے پاکستان کا مجموعی احاطہ کرنے کے علاوہ سبھی بڑے شہروں حتیٰ کہ شاہراہ قراقرم کے حوالے سے بھی ایک کتاب ٹھوس معلومات کا مجموعہ ہے اور یہ سبھی کتابیں اِس قدر باریک بینی اور اِس قدر منظم انداز سے معلومات اکٹھا کرنے کے بعد سائنسی انداز میں مرتب کی گئی ہیں کہ اِن کا ہر ایک لفظ کئی سال گزرنے کے بعد بھی اپنی معنویت نہیں کھوتا جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کوئی بھی کام سوچ سمجھ کے ساتھ توجہ سے کیا جائے تو اُس کی عمر بڑھ جاتی ہے‘ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیرملکی اِشاعتی اِدارے کی پاکستان سے متعلق سبھی کتابیں سیاحوں کی نفسیات مدنظر رکھتے ہوئے تحریر کی گئی ہیں اور اِس میں کسی ایک پیرائے کے مطابق تصویریں‘ نقشہ اور معلومات درج ہوتی ہیں۔ آبائی طور پر عاصم کا تعلق لاہور سے ہے‘قبل ازیں پاکستان کے قابل دید سیاحتی مقامات کے بارے میں بھی اُنہوں نے ایک نقشہ تخلیق کیا تھا تاہم اُن کی کوششوں اور سیاحتی ترقی کے لئے خدمات کو سراہا نہیں گیا لیکن اپنے خلوص اور پاکستان سے محبت کے باعث وہ گمنام نہیں اور اُنہیں اندرون و بیرون ملک سیاحتی حلقوں و عوامی حلقوں میں شناسائی حاصل ہے۔ اِنسٹاگرام پر عاصم کے پروفائل اور ویب سائٹ کے ذریعے اُن کی فوٹوگرافی اور دیگر شعبوں میں مہارت کا اندازہ لگایا جا سکتا جبکہ ویب سائٹ سے مذکورہ نقشے اور تصاویر ہائی ریزولوشن میں بلاقیمت حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم (اپریل 2010ئ) کے بعد سے سیاحت کا شعبہ زوال پذیر ہے ‘ماضی کی طرح اب بھی سیاحتی ترقی کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ غیرترقیاتی اخراجات یا پھر سیاحتی ترقی کے لئے سوچ بچار اور مشاورتی کمیٹیاں بنانے کی نذر ہو رہا ہے‘ مذکورہ آئینی ترمیم کے بعد گزشتہ دس سالہ عرصے کا خلاصہ یہی ہے کہ سیاحت اور سیاحتی ترقی جہاں ہے‘ وہیں رکی ہوئی ہے جبکہ اِس شعبے پر توجہ دینے سے ملازمتی مواقع پیدا کرنے کے علاوہ کثیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے‘ وفاقی حکومت نے کورونا وباءکے باعث بند کئے گئے سیاحتی مقامات کھولنے کی اجازت دیدی ہے اور اُمید ہے کہ آئندہ ہفتے کے آغاز (10 اگست کے بعد) سے خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات مقامی و غیرمقامی سیاحوں سے بھر جائیں گے لیکن وقت ہے کہ ”کورونا وبائ“ کے حملے اور شدت کو معمولی اور ایک مرتبہ پیش آنے والا واقعہ نہ سمجھا جائے‘ سیاحتی مقامات کو بند کرنے کی بجائے اگر ہوٹلوں اور دیگر قیام گاہوں (گیسٹ ہاو¿سز) کو ’آن لائن بکنگ‘ کے وسائل سے منسلک کر دیا جائے اور اِس سلسلے میں میزبان صنعت کی تکنیکی امداد و رہنمائی کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کی سطح پر ایک مرکزی ڈیٹابیس کے ذریعے کمروں کی پیشگی بکنگ متعارف کروائی جائے تو نہ صرف سیاحتی مقامات کبھی ویران نہیں ہوں گے بلکہ عموماً ٹیکس چوری کی شکایات بھی رفع ہو جائیں گی کیونکہ ہوٹلوں اور دیگر کمرشل قیام گاہوں کو صرف آن لائن بکنگ کرنے کی اجازت ہو گی۔
جبکہ دوسری طرف سیاحتی مقامات کسی بھی وجہ سے بند نہ ہونے کی وجہ سے وہاں روزگار کے مواقع بحال رہیں گے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو نقصان بھی نہیں ہوگا ‘سیاحتی مقامات کی رونقیں بحال ہونے کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے ہوٹل کو آن لائن بکنگ اور آن لائن ادائیگی وصولی سے منسلک کرتے ہوئے صوبائی حکومت کی ویب سائٹ کے ذریعے تشہیر کی سہولت دی جائے اور آن لائن وسائل کے استعمال کو لازم قرار دیا جائے‘ایسا کرنے سے سیاحوں کے لئے نسبتاً آسان ہوگا کہ وہ خدمات کی زیادہ قیمت وصول کرنے (اوور چارجنگ) جیسی عمومی شکایت کے علاوہ قیام و طعام کے حسب وعدہ معیار کی عدم فراہمی اور کورونا وبا ءسے بچاو¿ کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت معاملات متعلقہ حکومتی اِدارے کے علم میں لا سکیں‘پاکستان میں سیاحتی ترقی سے متعلق سوچ بچار کا عمل اور بندکمروں میں متعلقہ اور غیرمتعلقہ افراد کے سرجوڑ کر روایتی انداز میں فیصلہ سازی کی بجائے اگر نجی شعبے کی مہارت اور بالخصوص سیاحت میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کو شریک سفر کر لیا جائے تو اِس کم خرچ حل کے توقعات سے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔