کورونا وائرس کے سبب معطل سماجی و کاروباری سرگرمیوں کی بتدریج بحالی کا عمل 15 مارچ سے جاری ہے جس کی مرحلہ وار تکمیل 15 ستمبر سے ممکنہ طور پر تعلیمی ادارے کھلنے سے ہو جائے گی۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی پہلوو¿ں کو مدنظر رکھتے ہوئے ’لاک ڈاو¿ن ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ’کورونا وبا‘ کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے اور اگر اب بھی احتیاط نہ کی گئی تو دنیا کے کئی ممالک بشمول ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کی طرح ’کورونا‘ پھیلنے کا سلسلہ رکنے کے بعد پھر سے شروع ہو سکتا ہے جبکہ علاج گاہیں کورونا متاثرین سے بھری پڑی ہیں۔ نئی مشکل یہ ہے کہ جن نجی تعلیمی اداروں میں محدود پیمانے پر قیام و طعام اور تدریسی سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت دی گئی ہے اُسے ’کورونا ٹیسٹ‘ سے مشروط کر دیا گیا ہے جبکہ قبل ازیں بنا علامات کورونا ٹیسٹ نہ کروانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سماجی و کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں مکمل بحال کر بھی جائیں لیکن کورونا وبا کا خوف اور اِس کے ممکنہ خطرات کم نہیں ہوں گے لیکن اِس حقیقت کے بارے ’پورا سچ‘ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا کہ اگرچہ سیاحتی مقامات سمیت کاروباری سرگرمیوں کو حسب معمول کھولا جا رہا ہے لیکن اِس کا قطعی مطلب نہیں کہ کورونا وبا کا خطرہ ٹل چکا ہے لہٰذا ماضی کی طرح احتیاط لازم ہے اور بنا ضرورت اور بنا احتیاط گھروں سے باہر آمدورفت سے گریز کیا جائے۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے طول و عرض میں کورونا وبا سے نئے متاثرین کی تعداد میں ہر دن کمی آ رہی ہے اور اگرچہ ملک میں بیس ہزار کورونا متاثرین ہیں لیکن اِن میں سے صرف 1300 زیرعلاج ہیں اور پاکستان کا عمومی تجربہ یہ سامنے آیا ہے کہ اگر کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کوئی مریض خود کو گھر کی حد تک محدود کر لے تو دس سے چودہ روز میں جسمانی قوت مدافعت کورونا وائرس پر قابو پا لیتی ہے لیکن کورونا کے بیس فیصد متاثرہ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں اِس مرض کی اِبتدائی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور وہ اپنے گردوپیش میں صحت مند لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ اِس لئے ہوٹل اور ریسٹورنٹس کھولنا دانشمندی نہیں جہاں چاردیواری اور کمروں کے اندر کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوں۔ سیاحتی مقامات کھولنا بھی اپنی جگہ خوش آئند ہے لیکن ہوٹل اور گیسٹ ہاو¿سیز میں قیام کے علاوہ اِن مقامات پر کھانے پینے کی سہولیات عام کرنے سے ہجوم میں اضافہ ہوگا‘ جو خطرے کا باعث ہوسکتا ہے۔ میدانی علاقوں میں موسم گرما کی شدت اور تعلیمی ادارے کھلنے میں ایک ماہ سے زائد کا عرصے ہونے کی وجہ سے یقینا بڑی تعداد میں لوگ سیاحتی مقامات کا رخ کریں گے‘ جہاں صارفین کے منتظر ہوٹلز‘ ریسٹورنٹس اور گیسٹ ہاو¿سیز سمیت ’کم قیمت کھانے پینے کے مراکز‘ منتظر ہیں جن سے اِس بات کی توقع رکھنا کہ وہ ازخود کورونا سے احتیاطی اور حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کریں گے خود فریبی ہوگی۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ تعلیمی اداروں کا 15 ستمبر سے کھلنے کا فیصلہ حتمی نہیں بلکہ اِس بات کا فیصلہ 7 ستمبر کو ہونے والے چاروں صوبوں اور وفاق کے متعلقہ نمائندوں پر مشتمل اجلاس میں کیا جائے گا۔
اطلاعات اور معلومات کو صرف اُسی صورت ”خوشخبری“ کے طور پر لینا چاہئے جبکہ اُن کا مفہوم واضح ہو۔ ایک ایسے مرحلے پر جب سارا پاکستان کورونا وائرس سے بچاو¿ بھی چاہتا ہے اور احتیاطی تدابیر کی صورت اپنے رہن سہن میں تبدیلی نہ کرنے کا بھی خواہشمند ہے تو صورتحال کو کم سے کم خطرناک بنانے کے لئے عوام کے سامنے حقیقت کے دونوں رخ پیش کرنے چاہئیں۔ یقینا ہر کوئی یہ سن کر خوش ہوا ہے کہ روزگار کی بحالی اور ملازمتی پابندیاں ختم ہونے جا رہی ہیں۔ کاروباری طبقات جن مایوس کن حالات سے پریشان تھے اب اُن کی پریشانی بھی ختم ہونے والی ہے کیونکہ بازار حسب معمول سارا دن رات کھولے جا سکتے ہیں جبکہ ضرورت کورونا وبا کی موجودگی کا کماحقہ احساس کرنے کی ہے۔ جو شعبے کورونا وبا کی وجہ سے براہ راست اور مکمل طور پر متاثر ہوئے اُن میں سیاحت بھی شامل ہے‘ جہاں چار چھ ماہ کے لئے پورا سال سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے شادی ہالز اور مزارات کھولنے کا فیصلہ جلدبازی کا مظہر ہے۔ یہ دونوں مقامات پرہجوم مناظر کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور ایک مرتبہ اِنہیں بحال کرنے کے بعد دوبارہ بندش عائد کرنا اِس قدر آسان نہیں ہوگا کیونکہ عام آدمی بندش زدہ حالات سے متاثر ہونے کے سبب نفسیاتی دباو¿ میں ہے‘ جس سے نکلنے کے لئے وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے سے گریز نہیں کرے گا اور یہی وہ منصب اور نازک مرحلہ¿ فکر ہے جہاں سے قومی فیصلہ سازوں کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔