حزب اختلاف کے فیصلے کون کر رہا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو حکمراں جماعت تحریک انصاف کی ’کامیاب سیاسی حکمت عملی‘ کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ جس نے معمولی عددی برتری کے ساتھ بھی سیاسی مخالفین کو نکیل ڈال رکھی ہے اور باوجود خواہش بھی حکومت مخالف کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں ‘نظریہ فوت ہو چکا ہے ‘اصول دفن کر دیئے گئے ہیں ‘عیاں ہو چکا ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے حکومت گرانے کی دھمکیوں میں اثر نہیں رہا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مخالفانہ سیاست کرنے والی جماعتوں کے اراکین میں سے ہر کوئی اپنی سیاست بچانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا نتیجہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین کی جانب سے وقتاً فوقتاً دیئے گئے بیانات کی بے توقیری ہے کہ اِن پر یا تو عمل درآمد نہیں ہوتا یا پھر حزب اختلاف اپنے فیصلوں کی رازداری برقرار نہیں رکھ پا رہی جس کے باعث اُن کی چال عملی طور پر ظاہر ہونے سے قبل ہی ناکام ہو جاتی ہے ماضی میں کبھی بھی حزب اختلاف کی جماعتیں خود کو اِس قدر بے بس تصور نہیں کرتی تھیں‘ جس قدر موجودہ حالات میں کر رہی ہیں ۔
یہ حقیقت اِس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ماضی میں کی گئی مہم جوئی‘ سیاست میں براہ راست مداخلت‘ بیک وقت حکومت اور حزب اختلاف کی حمایت جیسے تجربات اور اُن کے حاصل شدہ نتائج سے جو ایک باریک نکتہ سمجھ لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کا تسلسل بصورت عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہی کافی نہیں بلکہ موروثی سیاست میں طرزحکمرانی اور سیاسی قیادت کے مفادات کے ایک ہونے سے خاطرخواہ بہتری نہیں آئے گی۔تحریک انصاف کے لئے ہر مشکل آسانی سے بدل رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا ہے کہ ”عالمی ادارے (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے تجویز کردہ سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے کے لئے قوانین میں ترامیم کے مرحلے پر حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں نے جس انداز میں تحریک انصاف کا ساتھ دیا‘ وہ طے شدہ حکمت عملی کے مطابق نہیں تھا۔“ مولانا فضل الرحمن نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ”نواز شریف متفق تھے کہ ’ایف اے ٹی ایف‘ کے حوالے سے قانون سازی میں نواز لیگ کے اراکین حصہ نہیں لیں گے اور اِس سلسلے میں وہ مسلسل رابطے میں رہے جبکہ قانون سازی سے چند گھنٹے قبل تک اُنہوں نے ذاتی طور پر یقین دہانی بھی کروائی لیکن ایوان کے اندر صورتحال مختلف برآمد ہوئی اور حکومت کو پارلیمان سے قانون منظور کروانے میں کسی بھی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن اپنے بیانات کی حد تک انتہائی محتاط ہیں اور اُن کے ہاں صرف الفاظ نہیں بلکہ سلیقہ بھی پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ الفاظ کے انتخاب میں خاصی محنت و احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کے دلبرداشتہ ہونے کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے اور نواز شریف کے درمیان اُن براہ راست رابطوں کا ذکر کیا۔
جو ایک اہم قانون سازی کی راہ میں روڑے اٹکانے سے متعلق تھی‘ماضی میں جب حکمران غیرقانونی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے تھے تو اِس ’منی لانڈرنگ‘ کے عمل میں دیکھا دیکھی دیگرطبقات بھی شریک ہو گئے جو قومی خزانے سے رعایت لیتے تھے‘یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جس کی قیادت اپنے اُور اہل و عیال کے علاج معالجے‘ بچوں کی تعلیم و ملازمتوں اور مالی تحفظ کے لئے اندرون نہیں بلکہ بیرون ملک سہولیات سے فائدہ اُٹھاتی ہے‘ ایک ایسا ماحول کہ جس میں پاکستان‘ قوم پرستی اور حب الوطنی جیسے تصورات واضح نہ ہوں‘ وہاں اگر دنیا یہ کہے کہ پاکستان کو اپنے مالی معاملات کی اصلاح کرنی چاہئے اور منی لانڈرنگ روکنے کے لئے سخت گیر قوانین اور قواعد لاگو کرنے چاہئیں تو حزب اختلاف ایسی قانون سازی سے متفق نہیں تو کیا حزب اختلاف کی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان پر دہشت گردی کی ممکنہ مالی سرپرستی کرنے کی پاداش عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہو جائیں؟ ذہن نشین رہے کہ جب کسی ملک پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تو اُس کی کرنسی بے وقعت ہو جاتی ہے۔ 9 اگست ہی کے روز ایک امریکہ ڈالر کی قدر 170 پاکستانی روپے کے مساوی تھی ‘اگر ایک ڈالر چالیس ہزار پاکستانی روپوں کے مساوی ہو گیا‘ تب کیا ہوگا؟ لگتا ہے کہ پریشانیاں صرف عام آدمی کا مقدر ہیں۔ قومی فیصلہ سازی میں شریک جماعتیں اور ماضی و حال کے کئی سیاسی وغیرسیاسی حکمرانوں نے اپنے مالی مفادات بصورت بیرون ملک سرمایہ کاری محفوظ کر رکھے ہیں‘ جنہیں پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت کے مستقبل کی خاطرخواہ فکر نہیں۔ ”وہ تو خوشبو ہے ہواو¿ں میں بکھر جائے گا .... مسئلہ پھول کا ہے‘ پھول کدھر جائے گا؟ (پروین شاکر)“