امریکی سائنسدانوں نے جانوروں میں ایک ایسا چھوٹا آر این اے (مائیکرو آر این اے) دریافت کیا ہے جو بالوں کی نشوونما میں باقاعدگی لاتا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ مستقبل میں اس کی مدد سے گنجوں کو ’’بال دار‘‘ بھی بنایا جاسکے گا۔
ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین یہ جاننے کےلیے تحقیق میں مصروف تھے کہ بال اگانے کا عمل کس طرح درست کیا جاسکتا ہے۔
گنج پن میں عام طور پر بالوں کی افزائش کرنے والے، جوف نما مسام (hair follicles) کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور وہ بال اُگانے کا کام ٹھیک سے نہیں کر پاتے، یا پھر بالکل ہی ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ گنج پن دور کرنے سے متعلق حالیہ تحقیق بھی اسی بارے میں ہے کہ بالوں کی افزائش کرنے والے مساموں کی کارکردگی کس طرح بحال کی جائے۔
تجربہ گاہ میں بالوں کے مساموں کے صحت مند خلیات اُگانے میں خاصی کامیابی حاصل ہوچکی ہے جس کی بدولت ان خلیوں کو پہلے پیٹری ڈش میں بہترین کارکردگی کےلیے پروان چڑھایا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں گنج پن میں مبتلا متعلقہ فرد کی کھوپڑی پر واپس پیوند کردیا جاتا ہے۔ البتہ صرف اتنا ہی کافی نہیں ہوتا۔
سابقہ تحقیق سے معلوم ہوچکا ہے کہ ہیئر فولیکلز کے خلیوں کی افزائش اگر پیٹری ڈش کے سپاٹ (2D) ماحول کے بجائے نسبتاً گہرے ٹب جیسے ماحول (3D) میں کی جائے تو اس سے کہیں بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مذکورہ تحقیق میں پہلے مرحلے پر یہی کیا گیا اور مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے بالوں والے مساموں کے خلیوں کو تھری ڈی ماحول میں بڑھنے دیا گیا۔
جب انہیں گنج پن میں مبتلا چوہوں کی کھال پر منتقل کیا گیا تو صرف 15 دنوں میں ان چوہوں کی کھال پر 90 فیصد بال واپس نکل آئے۔
مزید آگے بڑھ کر انہوں نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ آخر وہ کونسا جزو ہے جو ہیئر فولیکلز کے خلیوں کی کارکردگی بہتر بنا رہا ہے۔ ماہرین کو معلوم ہوا کہ ان خلیات کا رابطہ دیگر خلیوں سے جتنا بہتر ہوگا، یہ اتنی ہی تیزی سے اپنی جگہ بنائیں گے اور اتنی ہی جلد گنج پن بھی دور ہوگا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ ایک چھوٹا (مائیکرو) آر این اے ’’miR-218-5p‘‘ بالوں کی افزائش کو تقویت پہنچانے والے ’’جینیاتی پیغامات‘‘ کو متعلقہ خلیات میں تحریک دے رہا تھا۔ اپنے اطمینان کی غرض سے جب انہوں نے اس مائیکرو آر این اے کی مقدار بڑھائی تو متعلقہ خلیات میں بال بننے کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئیں۔
اگرچہ یہ بہت اہم دریافت ہے جو گنج پن کے بہت آسان علاج کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتی ہے لیکن فی الحال یہ ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اس لیے اگلے دو تین سال میں تو نہیں لیکن قوی امکان ہے کہ آئندہ پندرہ سے بیس سال میں گنج پن کا یہ جینیاتی طریقہ علاج خاصا پختہ ہوچکا ہوگا اور اس کا استعمال بھی شروع کیا جاچکا ہوگا۔