اگر کسی نے تہیہ کیاہواہوکہ کسی بھی بات پر اس نے اتفاق و اطمینان نہیں کرناتو پھر آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہردور میں حکومت کے مثبت اقدامات میں سے بھی تنقید کے پہلو تلاش کرہی لیا کرتے ہیں اس وقت بھی کہ جب کشمیر کے ایشو پر بھارت کو جواب دینے کے لیے حکومت نے سرکاری سطح پر نیانقشہ جاری کیاہے اس پر بہت سے حلقوں کی طرف سے تنقیدسے آگے بڑھ کرطنز کے نشتر برسائے جارہے ہیں اس سلسلہ میں حکومت کاکہناہے کہ نیا نقشہ پاکستان اور بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں کشمیر کے عوام کے اصولی موقف کی تائید کرتا ہے نیا نقشہ گز شتہ سال 5 اگست کو بھارت کے غیر قانونی قبضے کو بھی مسترد کر تا ہے نیا سرکاری نقشہ نصاب میں بھی شامل کیا جائے گا‘یقینا وفاقی کابینہ نے پاکستان کے نئے سیاسی نقشہ کی منظوری دے کرایک تاریخی اور جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان نے پہلی بار اس نئے سیاسی نقشہ سے بھارت کو بڑا مسکت جواب دیدیا ہے اگردیکھاجائے تو آج سے تین چارعشرے قبل تک یہی ہمارا سرکاری نقشہ ہواکرتاتھا جس میں جوناگڑھ اور مناوادر کو بھی پاکستان کاحصہ دکھایاجاتاتھا مگر جب ہمارے ہاں جمہوری دور شروع ہوا تو ہم اپنے پرانے نقشہ سے دستبردار ہوگئے اور ہم نے ذہنی طورپر بھارت کاتیار کردہ نقشہ قبول کرلیاتھا یہ بھی درحقیقت قوم کی ذہن ساز ی کی کوشش ہوا کرتی ہے اسی کو سلو پوائزننگ کہاجاتاہے ہماری موجودہ نسل کو پتہ ہی نہیں کہ جوناگڑھ ،مانگرول اورمناوادر بھی پاکستان کاحصہ تھے۔
جس پر بھارت نے غیرقانونی قبضہ کیاہوا ہے اب کم از کم اس نئے نقشہ کیوجہ سے یہ گم گشتہ پاکستانی ریاستیں نئی نسل کے سامنے آسکیں گی اب اگر موجودہ حکومت نے سابق ادوار کی ایک بڑی غلطی کی اصلاح کردی ہے تو اس کی تائید کرنی چاہئے تاہم کشمیر کے معاملہ پر صرف نقشوں سے کام نہیں چلے گا اس سلسلہ میں اب وزیر اعظم عمران خان کواپنے سفارتی محاذ کو بھی خاصا متحرک کرنا پڑے گا اور باہر ملکوں میں تعینات پاکستانی سفیروں کو کھلے اور واشگاف الفاظ میں کہنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو پوری طرح سے اجاگر کریں۔سچ یہ ہے کہ ہمارے مقابلے میں بھارت کا سفارتی محاذ خاصا فعال ہے بھارتی سفراءمسئلہ کشمیر پر اپنا نا جائز موقف ایسے انداز سے پیش کررہے ہیں کہ اس سے بھارت کاجھوٹ سچ کا گمان ہوتا ہے جبکہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں سفیروں کی تعیناتی خالصتاً حکمرانوں سے وفاداری کے اصول پر ہوتی ہے جو ایک غیر جمہوری عمل ہے ۔ ہم نے ان ہی سطور میں متعدد بار پاکستانی سفیروں کی نااہلی کے بارے میں لکھا ہے اور یہ بھی کہ غیر ممالک میں پاکستانی سفیر اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں ، ان کی قابلیت اور سفارتی تجربہ سے وہاں کی حکومت اور عوام متاثر ہوتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے سفیروں کے مقابلہ میں بھارت کے سفیر نہ صرف قابل بلکہ اپنے ملک کی ہر حوالہ سے بھر پور طریقہ سے نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو غیر ممالک میں پاکستانی سفیروں کو تطہیری عمل سے گزارنا چاہئے ۔
سفیر کا عہدہ بے حد اہمیت کا حامل عہدہ ہے اس پر تعیناتی سے پہلے انتہائی عرق ریزی سے سوچنا اور فی©صلہ کرنا ہوگا۔ اب جبکہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ایک مثبت اقدام کیا ہے تو اس کے بہتر نتائج حاصل کرنے باہر ملکوں کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کرنے اور بھارت کے مسئلہ کشمیر پر نا جائز موقف کو رد کرنے کے لئے ایماندار ، وطن دوست اور سیاسی بصیرت کے حامل سفیروں کو تعینات کرنے کی بے حد ضرورت ہے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کے انتخاب میں بھی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیا اب اکثر وزراءکے بیانات اور ان کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرایا جا تا ہے اس لئے اب وزیر اعظم عمران خان کو پاکستان کے نئے سیاسی نقشہ پر اقوام متحدہ ، عالمی طاقتوں اور دیگر مسلمان ، یورپی اور مغربی ملکوں کے حکمرانوں اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے قابل اور تجربہ کار اور وطن دوست سفیروں کی تعیناتی پر توجہ دینی ہوگی اور ایک ایسی ٹیم تشکیل دینی ہوگی جس میں ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سیاسی بصیرت کے حامل لوگوں کو شامل کیا جائے اور انہیں باہر ملکوں میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی پاس کردہ قرار دادوں کے مطابق حل کرنے اور پاکستان کے جائز موقف کی تائید وحمایت حاصل کرنے کا ٹاسک دیا جائے ۔ یہ کوئی مشکل یا ناممکن امر نہیں ہے اس لئے کہ مسئلہ کشمیر پر ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں ، عوام ، سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی صف میں ہیں اور اس پر سب یک سوچ اور یک قدم ہیں ۔