وہ شخص جو صدراتی استثنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے پانچ سال تک قانون سے بالاتر رہے جبکہ اِن کی سادگی و لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ صدراتی مدت کے دوران اور اِس سے قبل اِن کے خلاف ہر مقدمے کے گواہ‘ ثبوتوں‘ جج اور وکلاء یا تو تبدیل ہوئے یا پھر وہ اِس دنیا ہی میں نہیں رہے! بالآخر نشانے پر ہیں اور دس اگست کی صبح اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت 10ملزمان پر ”پارک لین کمپنی ریفرنس“ میں فرد جرم عائد کی اور فوری طور پر تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا جو ہمیشہ سے ہوتا ہے‘ یقینا خواب دیکھنا اچھا ہوتا ہے بس خوابوں کی دنیا میں رہنا نہیں چاہئے۔ آصف علی زرداری کے خلاف نیب کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے میں اُنہیں ”پارک لین کمپنی“ کے شریک منتظم (ڈائریکٹر) کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ملزم آصف علی زرداری عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور کراچی میں اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان پر فرد جرم عائد کی گئی زرداری خوفزدہ نہیں اور نہ ہی مرعوب ہیں۔ گزشتہ روز مقدمے کی کاروائی کے دوران انہوں نے احتساب عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا کہ ”اُنہیں علم ہے کہ فرد جرم کیسے عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ گذشتہ تیس سال سے ایسے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
“ اصولاً عدالت کو حکم دینا چاہئے تھا کہ ایسی گرجدار آواز اور مضبوط اعصاب والے شخص کو گھسیٹ کر عدالت لایا جائے‘ جو کبھی بیماری تو کبھی آئینی استثنیٰ کے پیچھے روپوش رہا اور اب عدالت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکار رہا ہے! اِس قسم کی جرا¿ت کا مظاہرہ اگر کسی عام آدمی نے کی ہوتی تو عدالت اُس پر توہین کا الزام بھی عائد کر دیتی اور اُسے فوری طور پر جیل جانا پڑتا۔ سماعت کے دوران زرداری نے ایک اور داو¿ کھیلا اور کہا کہ اُن کے وکیل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ احتساب عدالت کے جج نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو الزام پڑھ کر سناتے ہیں‘ آپ جواب دے دیجئے گا اور جج نے کہا کہ چارج شیٹ کے الزامات سننے کے لئے وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔اِس موقع پر زرداری نے ایک اور قانونی داو¿ کھیلا اور احتساب عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مائی لارڈ آپ آرڈر میں لکھیں کہ میرا وکیل موجود نہیں ہے۔‘ اس کے بعد احتساب عدالت کے جج نے ملزم کو مِخاطب کرتے ہوئے کہا ’مسٹر آصف علی زرداری‘ میں آپ کو چارج شیٹ سنا رہا ہوں۔‘ تجربہ کار زرداری نے پھر مداخلت کی اور کہا کہ میرے شراکت دارکے خلاف مقدمات چل رہے ہیں جس پر احتساب عدالت کے جج نے ملزمان سے کہا کہ ”وہ پوری فرد جرم سن لیں۔“ اور پھر جج نے فرد جرم سنانا شروع کی جس کے مطابق ”1: جعلی فرنٹ کمپنی بنا کر نیشنل بینک سے لیا گیا قرض خردبرد کیا گیا۔ 2: بطور صدر پاکستان نیشنل بینک پر دباو¿ ڈال کر قرض دلوایا گیا۔“ زرداری نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے فرد جرم کی صحت سے انکار کیا۔ مقدمے کے شریک ملزمان میں انور مجید‘ شیر علی‘ فاروق عبد اللہ‘ سلیم فیصل پر بھی ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی جبکہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں موجود ملزم حنیف پر فرد جرم عائد کی گئی ہے اور اِن سبھی ملزمان نے بھی صحت جرم سے انکار کیا۔ زرداری پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر ہیں اور اُنہیںگرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
کیا ”پارک لین ریفرنس‘ آصف زرداری کے لئے پریشانی کا باعث بنے گا جبکہ وہ اِس سے زیادہ سنگین نوعیت کے الزامات اور مقدمات سے نمٹ چکے ہیں؟ ذہن نشین رہے کہ پارک لین مقدمے کی گونج پہلی مرتبہ ’دسمبر 2018ئ‘ میں اُس وقت سننے میں آئی جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول اور شریک چیئرمین زرداری کو راولپنڈی نیب نے اسلام آباد کے نواحی علاقے سنگجانی میں قیمتی اراضی سستے داموں خریدنے کی الزام میں طلب کیا تھا۔ الزام یہ ہے کہ اِنہوں نے ”پارک لین اسٹیٹ (پراپرٹی ڈیلر) کی وساطت سے اپنی نجی کمپنی کے ذریعے 2009ءمیں 2460کنال زمین جس کی اصل مالیت دو ارب روپے سے زیادہ ہے اسے صرف 6کروڑ 20لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ پارک لین اسٹیٹ کمپنی آصف زرداری‘ بلاول بھٹو اور دیگر افراد کی مشترکہ ملکیت ہے اور سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ کے مطابق اس کمپنی کے کل ایک لاکھ بیس ہزار شیئرز میں سے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری تیس تیس ہزار شیئرز کے مالک ہیں۔ یہ مقدمہ نیا نہیں اس سے قبل بھی 1997ءمیں بھی زرداری پر اس وقت کے احتساب بیورو نے قیمتی اراضی سستے داموں خریدنے کا الزام دائر کیا تھا تاہم ناکافی شواہد اور عدم ثبوتوں کے باعث یہ مقدمہ بند کر دیا گیا 2019ءمیں اِسی مقدمے میں زرداری کی ضمانت بھی ہو چکی ہے! جرم واضح ہے اور اراضی بطور ناقابل تردید ثبوت بھی موجود ہے لیکن عدالت دستاویزی ثبوتوں اور شواہد کے تانے بانے سے کسی نتیجے تک پہنچے گی اور پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ میں زرداری اُس شخصیت کا نام ہے جس کے نصاب میں سب کچھ ہے لیکن آزمائشوں سے گھبرانا اور ہارنا نہیں۔