عوام کیوںنہ گھبرائیں

 مشترکہ مفادات کونسل میں تمام وزرا ئے اعلی نے نئی متبادل توانائی پالیسی متفقہ طور پر منظور کر لی۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اعلامیہ کے مطابق کونسل نے وزارت پٹرولیم کو صوبوں سے مشاورت کے بعد آرڈیننس پر کام مکمل کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ۔سی سی آئی نے نیشنل ایجوکیشن کمیشن اور ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈ بیسک کمیونٹی سکول وزارت تعلیم سے لے کر صوبوں کے حوالے کرنے کی منظوری دیدی۔ کونسل کی این سی ایچ ڈی اور بی ای سی ایس کے معاملات بھی صوبوں کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ مرحلہ رواں مالی سال کے اندر مکمل ہو جائے گا۔وزارت پٹرولیم کی طرف سے کونسل کو گیس کی سالانہ طلب اور رسد کی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی اورمستقبل کی ضروریات اور گھریلو گیس کے ذخائر کی کمی سے متعلق کونسل کو آگاہ کیاگیا۔اعلامیے کے مطابق مختلف صوبوں سے گیس کی پیداوار ، کھپت اور ٹرانسمیشن کے اعداد و شمار اجلاس میں پیش کیے گئے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ آئندہ موسم سرما میں ملک کو گیس کی بڑی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گیس بحران سے بچنے کےلئے پیداوار ، گھریلو گیس کے تحفظ کےلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔وفاقی حکومت اس متوقع چیلنج سے نمٹنے کے لیے صنعت کے ماہرین کا ایک اجلاس منعقد کرے گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متبادل توانائی کی متفقہ پالیسی کے حوالے سے عوام کو تفصیلات بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

شاید یہ بھی قومی مفاد کا تقاضا ہو۔تاہم عوام کو خبردار کیاگیا کہ آنے والے موسم سرما کے دوران گیس کی قلت پیدا ہوسکتی ہے ظاہر ہے کہ طلب اور رسد میں اگر فرق بڑھ جائے تو قیمتیں بڑھیں گی۔بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سرکاری ادارے مقرر کرتے ہیں اس میں مافیاز کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی موقع نہیں۔جب بجلی، گیس اور تیل مہنگا ہوجائے تو ہر چیز کی قیمت پر اس کا اثر پڑتا ہے۔حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ گندم، آٹے ، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے میں بھی حکومت کا اپنا ہاتھ ہے۔ ہمارے وزیراعظم عوام کو بار بار تلقین کرتے رہتے ہیں کہ حالات جو بھی ہوں” گھبرانا بالکل نہیں“ حد ہوگئی حکومت خود عوام کو ڈرا رہی ہے اور پھر یہ دلاسہ بھی دے رہی ہے کہ جو بھی صورتحال بنی، گھبرانا نہیں ہے۔ ابھی بجلی کے بھاری بھر کم بل ادا کرکے عوام کی کمر دہری ہوگئی تھی کہ گیس کی قلت کی خبر بھی سنادی گئی اب تو حکومت عوام کو تھوڑا بہت گھبرانے کی اجازت دے ہی دے تو بہتر ہے۔غریب عوام کوآسائش فراہم کرنا اور ان کی مشکلات میں کمی لانا حکومت اپنی اولین ترجیح قرار دیتی رہی ہے۔ غریبوں کو ریلیف اسی وقت مل سکتا ہے جب انہیں روزگار اور کاروبار کرنے کے مواقع مل جائیں، مہنگائی میں کمی کی جائے تاکہ وہ محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو دو وقت روکھی سوکھی روٹی تو کھلا سکیں۔چینی کی قیمت بڑھاکر عوام کے منہ سے مٹھاس کی لذت پہلے ہی چھین لی گئی اب روٹی کا نوالہ بھی ان سے چھیننے کا سامان کیا جارہا ہے۔

 بیس کلو گرام آٹے کا تھیلا آٹھ سو سے تیرہ سو روپے کاہوگیا۔ حکومت نے آٹا مہنگا ہونے کے باوجود روٹی کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے تندور والوں نے روٹی کا وزن آدھا کردیا اب دس روپے کی روٹی پرانے زمانے کی اٹھنی سے تھوڑی بڑی رہ گئی ہے جو درمیانے درجے کے چار نوالے بنتے ہیں پہلے دو روٹیاں کھا کر سیر ہونے والا اب چار کھاکر بھی بھوکا رہتا ہے۔اگر روٹی کا وزن گرنے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو آئندہ سال روٹی کا سائز اٹھنی کے بجائے چونی کے برابر رہ جائے گا۔اور آٹا بوریوں اور تھیلوں کے بجائے ساشے پیک میں فروخت ہونا شروع ہوگا۔حکومت نے متبادل توانائی کی پالیسی تو منظور کرلی ہے عوام کےلئے متبادل ذرائع سے پیٹ بھرنے کے وسائل بھی ڈھونڈ لے توغریبوں کا بھلا ہوگا۔ملک کے مختلف علاقوں میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کی نوید گزشتہ ایک سال کے دوران دو تین بار سنائی گئی تیل اور گیس کے ان کنوﺅں پر کام بھی جاری ہے اور پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے۔ اسکے باوجود قلت پیدا ہونے والی بات ہضم نہیں ہورہی۔اگر حکومت قوم کو گھبراہٹ سے بچانا ہی چاہتی ہے تو اسے ریلیف پہنچانے کے لئے فوری طور پر کچھ اقدامات کرے کیونکہ مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور ناانصافی کا شکار عوام پہلے سے ہی اس قدر خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا ہیں کہ مزید گھبراہٹ ان کےلئے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔